تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کے لشکریوں میں خود ہی پھوٹ پڑ گئی ہے‘ تو میدان سے واپس چلے آئے اور پیچھے ہٹ کر اپنے خیموں میں مقیم ہو گئے‘ لیکن عثمان بن حنیف اپنے ساتھیوں کو لیے ہوئے برابر مقابلہ پر کھڑا رہا اور اس نے جاریہ بن قدامہ کو سیدنا ام المومنین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھیجا‘ جس نے آ کر عرض کیا کہ اے ام المومنین رضی اللہ عنہ عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا قتل ہونا زیادہ پسندیدہ تھا بمقابلہ اس کے کہ تم اس ملعون اونٹ پر سوار ہو کر نکلیں‘ تمہارے لیے اللہ تعالی نے پردہ مقرر کیا تھا تم نے پردہ کی ہتک کی‘ اگر تم اپنے ارادے سے آئی ہو تو مدینہ منورہ کی طرف واپس چلی جائو‘ اور اگر بجبر و اکراہ آئی ہو‘ تو خدائے تعالی سے مدد چاہو اور لوگوں سے واپس چلنے کو کہو۔ یہ تقریر ابھی ختم نہ ہونے پائی تھی‘ کہ حکیم بن جبلہ نے ام المومنین کے لشکر پر حملہ کر دیا‘ ادہر سے بھی مدافعت کی گئی‘ مگر شام ہونے کے سبب لڑائی ختم ہو گئی‘ اگلے دن علی الصبح حکیم بن جبلہ نے صف آرائی کی اور طرفین سے لڑائی شروع ہوئی‘ حکیم بن جبلہ مارا گیا اور خلاصہ یہ کہ عثمان بن حنیف کو انجام کار شکست ہوئی‘ بصرہ پر طلحہ رضی اللہ عنہ و زبیر رضی اللہ عنہ کا قبضہ ہو گیا‘ عثمان بن حنیف گرفتار ہو کر سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ کے سامنے آئے تو سیدنا ام المومنین رضی اللہ عنہ کو اطلاع دی گئی‘ انہوں نے چھوڑ دینے کا حکم دیا وہ وہاں سے چھوٹ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف روانہ ہوئے‘ اب سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ و زبیر رضی اللہ عنہ اور سیدنا ام المومنین رضی اللہ عنہ کا بصرہ پر قبضہ ہو گیا‘ لیکن یہ قبضہ بھی ویسا ہی تھا جیسا کہ عثمان بن حنیف کا قبضہ تھا‘ یعنی موافق و مخالف دونوں قسم کے لوگ بصرہ میں موجود تھے۔۱؎ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی مدینہ سے روانگی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ اہل مکہ مخالفت پر آمادہ ہیں تو آپ نے ملک شام کی طرف روانگی کا قصد ملتوی فرمایا اس کے بعد ہی خبر پہنچی‘ کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ مع لشکر مکہ سے بصرہ کی طرف روانہ ہو گئے‘ تو آپ کو بہت صدمہ ہوا‘ آپ نے تمام اہل مدینہ سے مدد طلب کی‘ خطبہ پڑھا اور لوگوں کو لڑائی کے لیے آمادہ کیا۔ اہل مدینہ کو یہ بہت ہی شاق گذرتا تھا‘ کہ وہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ ‘ طلحہ رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں لڑنے کو نکلیں لیکن جب سیدنا ابوالہیثم بدری رضی اللہ عنہ ‘ زیاد بن حنظلہ رضی اللہ عنہ ‘ خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ ‘ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے آمادگی ظاہر کی تو اور لوگ بھی آمادہ ہو گئے‘ آخر ماہ ربیع الثانی ۳۶ ھ کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ مدینہ سے نکل کر بصرہ کی طرف روانہ ہوئے ‘ کوفیوں اور مصریوں کے گروہوں نے بھی آپ کی معیت اختیار کی۔ عبداللہ بن سباء یہودی منافق‘ لشکر علی میں اسی لشکر میں عبداللہ بن سبا بھی معہ اپنے ساتھیوں اور راز داروں کے موجود تھا‘ جب آپ مدینہ سے روانہ ہوئے‘ تو راستہ میں سیدنا عبداللہ بن سلام مل گئے‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی لگام پکڑ کر کھڑے ہو گئے‘ اور کہا کہ اے امیرالمومنین رضی اللہ عنہ آپ مدینہ سے تشریف نہ لے جائیں‘ واللہ اگر آپ یہاں سے نکل جائیں گے تو مسلمانوں کا امیر یہاں پھر لوٹ کر نہ آئے گا‘ وہ لوگ گالیاں دیتے ہوئے عبداللہ بن سلام