تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
باتیں کرتے ہوئے سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے دیکھا‘ سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ عنہ بن ابی بکر کو قریب آتے دیکھ کر ابولولو وہاں سے اٹھ کر چل دیا‘ اٹھتے وقت خنجر جو وہ لیے ہوئے تھا‘ اس کے ہاتھ سے گر گیا تھا‘ جس کو گرتے ہوئے اور ابو لولو کو اٹھاتے ہوئے بھی سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے دیکھا تھا‘ اس وقت ان کو نہ کوئی شبہ گذرا تھا‘ نہ کسی قسم کا خیال ان کے دل میں پیدا ہوا تھا‘ لیکن جب ابولولو نے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو زخمی کیا اور اس کے بعد گرفتار ہو کر مقتول ہوا تو اس کے پاس سے جو خنجر نکلا اس کو سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے پہچانا کہ یہ وہی خنجر ہے جو چند روز ہوئے اس کے پاس دیکھا تھا‘ ساتھ ہی انہوں نے مذکورہ بالا تمام واقعہ بھی سنا دیا۔ ابولولو کے ہرمزان کے پاس جانے اور باتیں کرنے وغیرہ کا حال جب فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ان کے دوسرے صاحبزادے سیدنا عبیداللہ بن عمر نے سنا تو طیش اور انتقام کے جوش میں انہوں نے موقع پا کر ہرمزان پر حملہ کیا‘ ہرمزان کو زخمی ہو کر گرتا ہوا دیکھ کر سعد بن ابی وقاص عبیداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے گرفتار کرنے کو‘ اور عبیداللہ بن عمر جفینہ عیسائی غلام کے بھی قتل کرنے کو دوڑے‘ قبل اس کے کہ عبیداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جفینہ کے قتل پر قادر ہوں سعد بن ابی وقاص نے ان کو گرفتار کر لیا‘ چونکہ ابھی تک کوئی خلیفہ منتخب نہیں ہوا تھا اور سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ ہی عارضی طور پر خلافت کے ضروری کام انجام دے رہے تھے‘ لہذا سیدنا سعد بن ابی وقاص نے عبیداللہ بن عمر کو سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کیا‘ سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ نے ان کو خلیفہ کے منتخب ہونے تک کے لیے قید کر دیا۔ اب جب سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ خلیفہ منتخب ہوئے اور بیعت عامہ مسجد نبوی میں ہو چکی اور سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ خطبہ خلافت بھی لوگوں کو سنا چکے‘ تو سب سے پہلے آپ کی خدمت میں یہ مقدمہ پیش ہوا اور سیدنا عبیداللہ کو آپ کے سامنے لایا گیا ‘ سیدنا عبیداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے جب ہرمزان کے قتل کی نسبت دریافت کیا گیا تو انہوں نے قتل کا اقرار کیا‘ اس پر سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے مشورہ لیا‘ سیدنا علی نے فرمایا کہ عبیداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو ہرمزان کے قصاص میں قتل کر دینا چاہیے‘ لیکن سیدنا عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی کی اس رائے سے مخالفت کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ کسی طرح مناسب نہیں‘ ابھی کل پرسوں کی بات ہے کہ باپ مارا گیا ہے‘ آج اس کے بیٹے کو قتل کرتے ہو‘ اور لوگوں نے بھی عمروبن العاص کی رائے کی تائید کی‘ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کچھ شش و پنج میں پڑے لیکن فوراً ہی انہوں نے فرمایا کہ یہ معاملہ نہ عمر فاورق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت کا ہے اور نہ میری خلافت کے زمانہ کا‘ کیونکہ میرے خلیفہ منتخب ہونے سے پہلے یہ واقعہ ظہور میں آ چکا تھا‘ لہذا میں اس کا ذمہ دار نہیں ہو سکتا‘ اس کے بعد سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے یہ بہترین صورت اختیار کی کہ خود عبیداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا ولی بن کر اپنے پاس سے ہرمزان کے قتل کی دیت ادا کر دی اور منبر پر چڑھ کر ایک پراثر تقریر کی‘ اس طرح تمام لوگ اس فیصلے سے خوش ہو گئے اور سیدنا عبیداللہ بن عمر قصاص سے بچ گئے۔ ولایات کے عامل یا گورنر