تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
بن جعشم فوراً گھوڑا اڑا کر میدان میں شہریار کے مقابل پہنچے‘ شہریار ان کو نہایت کمزور دیکھ کر ان کی طرف بھاگا اور گردن پکڑ کر کھینچا اور زمین پر گرا کر ان کی چھاتی پر چڑھ بیٹھا‘ اتفاقاً شہریار کا انگوٹھا سیدنا نائل کے منہ میں آ گیا‘ انہوں نے اس کو اس زور سے چبایا کہ شہریار بیتاب ہو گیا اور سیدنا نائل فوراً اٹھ کر اس کے سینے پر چڑھ بیٹھے اور بلا توقف خنجر نکال کر اس کا پیٹ چاک کر دیا‘ شہر یار کے مارے جاتے ہی تمام ایرانی فوجیں بھاگ پڑی‘ شہریار کی زرہ‘ قیمتی پوشاک‘ زریں تاج اور ہتھیار سب نائل کو ملے‘ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے پہنچ کر شہریار کے مارے جانے اور کوثی کے فتح ہونے کا حال سنا اور اس مقام کو جا کر دیکھا جہاں سیدنا ابراہیم علیہ السلام قید رہے تھے‘ پھر سیدنا نائل کو حکم دیا کہ شہریار کی پوشاک پہن کر اورشہریار کے تمام ہتھیار لگا کر آئیں‘ چنانچہ اس حکم کی تعمیل ہوئی اور لشکر اسلام اس نظارہ کو دیکھ کر خدئے تعالیٰ کی حمدو ثنا میں مصروف ہوا۔ بہرہ شیر کی فتح بہرہ شیر ایک مقام کا نام تھا‘ جو مدائن کے قریب ایک زبردست قلعہ اور شہر تھا‘ بہرہ شیر میں شاہی باڈی گارڈ کا ایک زبردست رسالہ اور دارالسلطنت کی حفاظت کے لیے نہایت زبردست اور بہادر فوج رہتی تھی مدائن اور بہرہ شیر کے درمیان دریائے دجلہ حائل تھا‘ بہرہ شیر اس طرف تھا اور مدائن دجلہ کے اس طرف تھا‘ شہنشاہ ایران کبھی بہرہ شیر میں آ کر رہتا تھا‘ یہاں بھی شاہی ایوان‘ اور شاہی کارخانے موجود تھے‘ اسلامی لشکر کوثی سے آگے بڑھا تو بہرہ شیر پہنچنے تک کئی مقامات پر ایرانیوں کا مقابلہ کرنا اور ان کو شکست دے کر راستے سے ہٹانا پڑا‘ یہاں تک کہ مسلمانوں نے بہرہ شیر کا محاصرہ کر لیا‘ یہ محاصرہ تین مہینے تک جاری رہا‘ آخر محصورین سختی سے تنگ آ کر مقابلہ پر آمادہ ہوئے‘ اور شہر پناہ سے باہر مقابلے پر آئے‘ بالآخر مقتول و مفرور ہوئے اور اسلامی لشکر فاتحانہ بہرہ شیر میں داخل ہوا‘ بہرہ شیر کے مفتوح ہوتے ہی یزدجرد نے مدائن سے بھاگنے اور اموال و خزائن کے مدائن سے منتقل کرنے کی تدابیر اختیار کیں‘ مدائن سے یزدجرد کا معہ خزائن کے بھاگ جانا مسلمانوں کے لیے خطرات کا بدستور باقی رہنا تھا۔ بحرظلمات میں دوڑا دئیے گھوڑے ہم نے سیدنا سعد کو اب اس بات کا خیال تھا کہ جس قدر جلد ہو مدائن پر قبضہ کریں‘ لیکن دریائے دجلہ بیچ میں حائل تھا اور اس کا پایاب عبور کرنا سخت دشوار تھا‘ ایرانیوں نے بہرہ شیر سے بھاگتے ہوئے پل کو بالکل مسمار اور منہدم کر دیا تھا‘ دور دور تک کوئی کشتی بھی نہیں چھوڑی تھی‘ دوسرے کنارے پر ایرانی فوج بھی متعین تھی جو عبور دریا سے مانع تھی۔ دوسرے روز سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے گھوڑے پر سوار ہو کر اور تمام فوج کی کمر بندی کرا کر فرمایا کہ تم میں کون ایسا بہادر سردار ہے جواپنی جمعیت کے ساتھ اس بات کا وعدہ کرے کہ وہ ہم کو دریا کے عبور کرنے کے وقت دشمن کے حملہ سے بچائے گا‘ سیدنا عاصم بن عمرو رضی اللہ عنہ نے اس خدمت کی ذمہ داری قبول کی اور چھ سو تیر اندازوں کی ایک جماعت لے کر دریائے دجلہ کے اس کنارے ایک اونچے مقام پر جا بیٹھے‘ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے نستعین باللہ و نتوکل علیہ حسبنا اللہ و نعم الوکیل ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم ۱؎کہہ کر اپنا گھوڑا دریا میں ڈال دیا‘ ان کی تقلید میں دوسروں نے بھی جرات سے کام لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے لشکر