تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کرنے کے لیے مکہ معظمہ سے آفتاب رسالت طلوع ہوا اور اس نے طلوع ہو کر تمام دنیا کو اپنی نورانی شعاعوں سے منور کر دیا۔ ہم کو اپنی کتاب اس طلوع آفتاب ہی سے شروع کرنی ہے‘ مگر اصل مدعا کے شروع کرنے سے پیشتر اس سوال کا جواب دینا مزید باقی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کے لیے ملک عرب ہی کیوں پسند کیا گیا؟ اور دوسرے کسی ملک میں نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ و سلم کو کیوں نہ پیدا کیا گیا۔ عرب کا انتخاب اس سوال کا سب سے زبردست نہایت مقعول اور مسکت جواب یہ ہے کہ نبی آخرالزماں خواہ کسی ملک میں پیدا ہو ہر حالت میں یہی اعتراض ہو سکتا ہے کیونکہ بہرحال وہ کسی ایک ہی ملک میں ہو گا اور دوسرے ممالک اس کی پیدائش و وجود سے محروم رہیں گے‘ پس جب کہ یہ صورت بہرحال شدنی ہے تو معترض کے لیے اعتراض کا کوئی حق باقی نہیں۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ دنیا کے دوسرے تمام مشہور ممالک کسی نہ کسی قدیم زمانہ میں ایک مرتبہ ضرور ترقی یافتہ اور عروج کی حالت میں رہ چکے تھے‘ ان کی تہذیب و تمدن‘ اخلاق و علوم وغیرہ ایسی حالت کو دیکھ چکے تھے کہ انہوں نے قوس اناولاغیری دنیا کی قوموں کے سامنے بجایا تھا‘ نیز ہر ملک کو دوسرے ملک کا حاکم یا محکوم بننے کا موقع مل چکا تھا پھر یہ کہ دنیا کے کسی دوسرے ملک کی زبان اس زمانہ میں ایسی مکمل اور ادائے بیان پر قادر نہ تھی جیسی کہ عرب کی زبان عرب کے جغرافیائی حالات اور باشندوں کی بے شغلی کے سبب مکمل ہو چکی تھی۔ اگر عرب کے سوا کسی دوسرے ملک میں وہ کامل نبی مبعوث ہوتا تو اس ملک کے باشندے یعنی اول مخاطبین چونکہ پہلے دوسرے ملکوں پر قابض و متصرف رہ چکے تھے لہذا اس نبی کی ہدایت اور ہدایت نامے کا قوی اثر اپنی پوری اور حقیقی شان دنیا پر ثابت نہ کر سکتا اور اس کا ایک بڑا حصہ اس ملک کی قدیم روایات کی طرف منسوب ہو جاتا۔ اس نبی کے ذریعہ تہذیب اخلاق اور تہذیب نفس کا جو عظیم الشان کام انجام پانے والا تھا وہ بھی اس ملک و قوم کی قدیمی روایات سے منسوب ہو کر نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ و سلم اور خاتم الکتب صلی اللہ علیہ و سلم کی عظمت و جلال کا ظاہر اور ثابت کرنے والا نہ ہوتا۔ کامل ہدایت نامہ کے لیے ضرورت تھی کہ وہ ایسی زبان میں نازل ہو جو دنیا کی زبانوں میں حد کمال کو پہنچ چکی ہو‘ عربی کے سوا کوئی دوسری زبان ایسے ہدایت نامہ کی جو قیامت تک کے لیے اور ہر ملک اور ہر قوم کے لیے نازل ہو متحمل نہیں ہو سکتی تھی اس لیے ضرورت تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ملک عرب میں پیدا ہوں۔ اہل عرب نہ کسی غیر ملک کے محکوم بنے اور نہ کسی غیر ملک پر قابض و متصرف ہوئے تھے ‘ عربوں کے لیے دنیا کا ہر ایک ملک اور ہر ایک قوم یکساں حیثیت رکھتی تھی وہ جب اسلام کو لے کر نکلے ہیں تو ہسپانیہ یعنی بحر اطلانتک کے ساحل مشرق سے چین یعنی بحیرہ چین کے مغربی ساحل تک ساری آباد و متمدن دنیا کے ملک اور قومیں ان کی نظر میں یکساں تھیں‘ وہ سب سے اجنبی تھے اور سب ان سے اجنبی‘ لہذا خدائے تعالیٰ نے جب ساری دنیا کے لیے ایک مذہب تجویز کیا۔۔۔۔ تو وہ مذہب ایک ایسی قوم کے ذریعے سے ساری دنیا میں شائع کیا جو سب کے لیے یکساں بے تعلق قوم تھی۔ عرب کے اخلاق