تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہے؟ انصار کی طرف سے جواباً عرض کیا گیا کہ ہمارے نوجوانوں نے اس قسم کی باتیں ضرور کی ہیں‘ لیکن ہم میں سے کسی پختہ مغز اور سمجھدار شخص کو اس بات کا خیال تک بھی نہیں آیا‘ نہ ہم کو کبھی ایسا خیال آ سکتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سن کر فرمایا کہ ’’اے جماعت انصار! کیا یہ سچ نہیں ہے کہ تم لوگ گمراہ تھے‘ خدائے تعالیٰ نے میری بدولت تم کو ہدایت عطا فرمائی؟ انصار نے عرض کیا’’بے شک اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا ہم پر بہت بڑا احسان ہوا‘‘۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ’’تم لوگ آپس ایک دوسرے کے دشمن تھے‘ میری بدولت تم میں اتفاق پیدا ہوا‘ انصار نے عرض کیا بے شک آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم پہ بڑا احسان فرمایا‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم لوگ نادار تھے‘ میری بدولت اللہ تعالیٰ نے تم کو غنی کیا‘ انصار نے عرض کیا بے شک اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا ہم پر بڑا احسان ہوا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ نہیں تم مجھ کو جواب دے سکتے ہو کہ ساری دنیا نے تجھ کو جھٹلایا اور ہم نے تیری تصدیق کی‘ سب نے تجھ کو چھوڑ دیا اور ہم نے پناہ دی‘ تو محتاج تھا ہم نے تیری مدد کی اور میں تمہاری ان سب باتوں کی تصدیق کروں گا‘ اے جماعت انصار! کیا تم کو یہ پسند نہیں کہ لوگ اونٹ اور بکری لے کر اپنے گھروں کو جائیں اور تم محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے گھر لے کر جائو‘‘۔ یہ تقریر سن کر انصار بے اختیار رو پڑے اور آنسئوئوں کی جھڑی سے ان کی ڈاڑھیاں تر ہو گئیں‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اگر ہجرت ایک تقدیری حکم نہ ہوتا تو میں بھی انصار میں ہی شامل ہوتا‘ اگر انصار ایک راستے پر چلیں اور لوگ دوسرا راستہ اختیار کریں تو میں یقینا انصار کا راستہ اختیارکروں گا۔ اے اللہ! انصار اور انصار کے لڑکوں پر اور ان کے لڑکوں پر رحم کر‘‘ یہ سن کر انصار کی جو حالت تھی اور ان کو جس قدر خوشی تھی اس کا ہم صرف تصور کر سکتے ہیں‘ بذریعہ الفاظ کیسے بیان کیا جا سکتا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انصار کو سمجھایا کہ یہ لوگ ابھی تازہ مسلمان ہوئے ہیں‘ تالیف قلوب کے خیال سے ان کو زیادہ مال دیا گیا ہے‘ یہ نہیں کہ ان کا حق زیادہ ہے۔۱؎ ۱؎ صحیحبخاریکتابفرضالخمسحدیث۳۱۴۷۔صحیحمسلمکتابالزکوٰۃباباعطاءالمؤلفۃقلوبھم۔ مکہ کا پہلا امیر بعد ازاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جعرانہ سے مکہ جاتے ہوئے عمرے کی نیت کی‘ مکہ میں داخل ہو کر عمرے کے ارکان سے فارغ ہو کر عتاب بن اسید ایک نوجوان شخص کو جن کی عمر بیس برس سے کچھ زیادہ تھی مکہ کا عامل مقرر فرمایا اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو بغرض تعلیم قرآن و احکام دین ان کے پاس چھوڑا اور معہ مہاجرین و انصار مدینے کی طرف روانہ ہوئے‘ عتاب بن اسید کو عامل اور مکہ کا امیر اس لیے مقرر کیا کہ ان کو دینی واقفیت حاصل کرنے کا بہت ہی شوق تھا‘ ایک درم روزانہ عتاب کے لیے وظیفہ مقرر فرمایا کہ وہ کسی کے دست نگر نہ رہیں‘۱؎ ۲۴ ذیقعدہ ۸ ھ کو آپ