تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کہ آپ اپنے چچائوں کو تیر اٹھا اٹھا کردیتے جاتے تھے۔۱؎ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو خود کسی سے مقابلہ اور قتال کا موقع نہیں ملا‘ اس لڑائی میں اول تو بنو ہوازن غالب نظر آتے تھے‘ بالآخر بنو کنانہ غالب اور قبائل قیس مغلوب ہونے لگے‘ پھر صلح پر لڑائی موقوف ہو گئی۔ ابن خلدون کی روایت کے موافق حرب فجار کے وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عمر دس برس کی تھی‘ مگر صحیح یہ ہے کہ حرب فجار ۵۸۱ ھ میں واقع ہوئی اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عمر پندرہ سال کی تھی۔ تجارت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جوان ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو تجارت کی طرف توجہ ہوئی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا ابوطالب نے بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے اسی شغل کو پسند کیا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم تجارتی قافلوں کے ہمراہ مال تجارت لے کر کئی مرتبہ گئے اور ہر مرتبہ منافع ہوا‘ ان سفروں میں لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی دیانت و امانت اور خوش معمالگی کا بغور معائنہ کیا‘ نیز شہر مکہ میں جن لوگوں سے بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا معاملہ ہوا سب ہی نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بے حد امین صادق القول‘ راست کردار اور خوش معاملہ پایا۔ عبداللہ بن ابی الحمسا رضی اللہ عنہ ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ بعثت سے پہلے اسی زمانہ میں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کوئی معاملہ کی بات کی ابھی بات ختم نہ ہوئی تھی کہ مجھ کو کسی ضرورت سے دوسری طرف جانا پڑا اور جاتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہہ گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم یہیں ٹھہرے رہیں میں ابھی واپس آ کر معاملہ ختم کر دوں گا‘ وہاں سے جدا ہو کر مجھ کو اپنا وعدہ یاد نہ رہا‘ جب تیسرے دن اس طرف کو گذرا تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اسی جگہ کھڑے ہیں‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ کو دیکھ کر صرف اسی قدر کہا کہ مجھ کو تم نے تکلیف اور محنت میںڈال دیا‘ میں اس وقت تک اسی جگہ تمہارے انتظار میں ہوں۔ اسی طرح سائب رضی اللہ عنہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ تھے‘ وہ جب ایمان لائے تو بعض لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں ان کی تعریف بیان کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ میں سائب رضی اللہ عنہ کو تم سے زیادہ ۱؎ سیرت ابن ہشام‘ صفحہ ۹۲۔ ۱؎ ۵۸۱ء میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی عمر دس ہی سال ہوئی۔ کیونکہ آپ کی پیدائش ۵۷۱ ء میں ہے۔ جانتا ہوں‘ سائب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر قربان ہوں‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ایک مرتبہ تجارت میرے شریک رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے معاملہ ہمیشہ صاف رکھا۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہ کی پیش کش قبیلہ بنو اسد کی ایک معزز خاتون بنت خویلد قریش میں ایک مال دار عورت سمجھی جاتی تھیں وہ بیوہ تھیں اور اب تک دو خاوندوں سے شادی کر چکی تھیں‘ ان کے دوسرے خاوند نے بہت کچھ مال و اسباب چھوڑا تھا‘ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہ اپنے کارندوں کے ہاتھ ہمیشہ شام ‘ عراق‘ اور یمن کی طرف مال تجارت روانہ کیا کرتی تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی دیانت و امانت کا شہرہ سن کر انہوں نے اپنے بھتیجے قطیمہ کی معرفت