تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
فرمایا‘ لڑنے اور میدان جنگ میں جانے کے قابل آدمی کل تین سو دس‘ یا تین سو بارہ‘ یا تین سو تیرہ تھے‘ شہر سے باہر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس اسلامی لشکر کی موجودات کی خبر لی تو ان میں تین سو تیرہ میں بعض ایسی چھوٹی عمر کے لڑکے بھی تھے جو میدان جنگ میں جانے کے قابل نہ تھے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو صغر سنی کے سبب واپس جانے کا حکم دیا‘ ان میں سے بعض نے اصرار کیا اور بمنت اپنے آپ کو لشکر اسلام میں شامل رکھنے کی اجازت حاصل کی۔ اس اسلامی لشکر کے سازو سامان کی یہ حالت تھی کہ صرف دو گھوڑے تھے جن پر سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ اور مقداد رضی اللہ عنہ سوار تھے‘ ستر اونٹ تھے‘ ایک ایک اونٹ پر تین تین‘ چار چار آدمی سوار تھے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جس اونٹ پر سوار تھے اس پر بھی دو تین شخص اور سوار تھے‘ بعض حضرات پیدل ہی رہے۔ یہ اسلامی لشکر بدر کے مقام پر پہنچا تو دیکھا کہ کفار پہلے سے بلند قطعہ زمین پر قابض و متصرف اور خیمہ زن ہیں‘ مسلمانوں کو نشیبی اور ریتلی جگہ ٹھہرنا پڑا‘ مگر بدر کے چشموں پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا کہ کفار میں جو شخص اس چشمہ سے پانی لینے آئے اس کو نہ روکو اور پانی لینے دو‘۲؎ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے ایک چھوٹی سی جھونپڑی تیار کر دی تھی‘۳؎ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس میں عبادت کرتے اور دعائیں مانگتے تھے‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم قریشیوں کے مقابلہ میں تعداد کے ۱؎ صحیحبخاری۔کتابالمغازیحدیث۳۹۵۲۔(صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا یہ جذبہ اطاعت و اتباع دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا چہرہ مبارک خوشی سے دمک اٹھتا تھا) ۲؎ تاریخ ابن ہشام‘ ص ۳۰۲۔ ۳؎ ایضاً‘ ص ۳۰۱۔ اعتبار سے تو ایک تہائی تھے اور سامان حرب کے اعتبار سے عشر عشیر بھی نہ تھے‘ کفار سب سے زیادہ زرہ پوش اور جوان توانا تھے‘ مسلمان عام طور پر فاقہ زدہ‘ ناتواں ‘ اور بیمار و ضعیف تھے‘ معمولی ہتھیار بھی سب کے پاس پورے نہ تھے‘ کسی کے پاس تلوار تھی تو نیزہ اور کمان نہ تھی‘ کسی کے پاس صرف نیزہ تھا تلوار نہ تھی‘ جب مسلمان جا کر خیمہ زن ہوگئے‘ تو کفار نے عمیر بن وہب جمحی کو سراغ رساں بنا کر روانہ کیا کہ مسلمانوں کے لشکر کی تعداد معلوم کر کے آئے‘ عمیر نے جا کر کہا کہ مسلمانوں کی تعداد تین سو دس سے زیادہ نہیں ہے اور ان میں صرف دو سوار ہیں‘ کفار کے غرور کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ عتبہ بن ربیعہ نے جب اس قلت تعداد کا حال سنا تو کہا کہ ان تھوڑے سے آدمیوں سے لڑنے کی ضرورت نہیں‘ ہم کو بلا جنگ کئے ہوئے واپس ہونا چاہیے‘ کیونکہ ہماری تعداد زیادہ ہے‘ لیکن ابوجہل نے مخالفت کی اور کہا ان سب کا خاتمہ ہی کر دینا چاہیے۔۱؎ آغاز جنگ بالآخر ۱۷ رمضان المبارک ۲ ہجری کو میدان کارزار گرم ہوا‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اول اپنے عبادت کے چھوٹے سے چھپر میں گئے اور رو رو کر جناب الہی میں دعا کی اور عرض کیا کہ اللھمانتھلکھذہالعصابۃمناھلالایمانالیومفلاتعبدفیالارضابدا’’الٰہی!