تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سیدنا ہشام بن عاص رضی اللہ عنہ نے ہجرت کا ارادہ کیا‘ مشرکین کو خبر ہو گئی‘ انہوں نے سیدنا ۱؎ سیرت ابن ہشام‘ ص ۲۲۹ … ام سلمیٰ رضی اللہ عنھا کو ایک سال کے بعد عثمان بن ابی طلحہ نے قبا کی بستی تک پہنچایا۔ ۲؎ سیرت ابن ہشام بحوالہ الرحیق المختوم‘ ص ۲۲۰۔ ہشام رضی اللہ عنہ کو پکڑ کر قید کر دیا اور قسم قسم کی تکلیفیں پہنچائیں۔۱؎ سیدنا عیاش رضی اللہ عنہ ہجرت کر کے مدینہ جا پہنچے تھے‘ ابوجہل ان کے پیچھے وہیں پہنچا اور دھوکہ دے کر مکہ میں لایا اور یہاں لا کر قید کر دیا۔ غرض اس قسم کی رکاوٹوں کے باوجود ایک ایک دو دو کر کے بہت سے مسلمان ہجرت کر کے مدینہ میں پہنچ گئے‘ وہاں یہ تمام مہاجرین مدینہ کے مسلمانوں کے مہمان تھے‘ مکہ سے آئے ہوئے ان مہمانوں کا نام مہاجرین اور مدینہ منورہ کے باشندوں یعنی میزبانوں کا نام انصار مشہور ہوا‘ آئندہ اسی نام سے یہ لوگ تعبیر کئے جائیں گے۔ اب سنہ ۱۴ نبوی صلی اللہ علیہ و سلم شروع ہو گیا تھا‘ مکہ میں صرف آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ان کے اہل و عیال باقی رہ گئے تھے‘ یا چند نہایت ہی کمزور و ضعیف لوگ جو ہجرت کی طاقت نہ رکھتے تھے باقی تھے‘ ورنہ تمام مسلمان مکہ سے ہجرت کر چکے تھے اور مکہ میں بہت سے گھر جن میں مسلمان آباد تھے خالی پڑے ہوئے تھے‘ آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ابھی تک ہجرت کا ارادہ نہیں فرمایا تھا‘ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم وحی الہی یعنی اجازت و حکم الٰہی کے منتظر تھے‘ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی ہمراہی کے لئے کہ رفیق سفر ہوں گے روک لیا تھا‘۲؎ اسی طرح سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم اور اجازت کی بنا پر رکے ہوئے تھے۔۳؎ دارالندوہ میں قبائل قریش کا جلسہ قریش نے جب دیکھا کہ مسلمان ایک ایک کر کے سب نکل گئے اور مدینہ میں ایک معقول تعداد مسلمانوں کی فراہم و مہیا ہو چکی ہے جس کی طاقت اور خطرہ سے انکار نہیں کیا جا سکتا تو ان کو اپنے مستقبل کی فکر پیدا ہوئی اور ان کو نمایاں طور پر نظر آنے لگا کہ ہماری عزت اور حیات کی حفاظت اسی پر منحصر ہے کہ اسلام کا استیصال کلی طور پر کر دیا جائے‘ چونکہ مکہ سے آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کی جماعت کے قریباً سب لوگ چلے جا چکے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم تنہا رہ گئے تھے‘ لہذا ان کے لئے اس فیصلہ پر پہنچنا بہت ہی آسان تھا کہ اس دین کے بانی کا خاتمہ کر دینا نہایت ضروری ہے اور اس کام میں غفلت کرنا خطرے سے خالی نہیں کیونکہ اگر محمد صلی اللہ علیہ و سلم بھی مکہ سے نکل گئے اور مدینہ میں اپنی جماعت سے جا ملے تو پھر اس نئے مذہب کے خطرہ کا مقابلہ کرنا بہت دشوار ہو گا‘ یہ خیالات قریش کے ہر شخص کی زبان سے اور ہر ۱؎ سیرت ابن ہشام‘ ص ۲۳۱۔ ۲؎ صحیحبخاری۔کتابمناقبالانصارحدیث۳۹۰۵۔ ۳؎ سیرت ابن ہشام‘ ص ۲۳۷۔