تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کے بعد اسکندریہ مفتوح ہوا اور مقوقس شاہ مصر نے جو اسکندریہ میں مقیم تھا اس شرط پر صلح کی کہ جو شخص اسکندریہ سے جانا چاہے اس کو جانے دیا جائے اور جو اسکندریہ میں رہے اس کو رہنے دیا جائے‘ فتح اسکندریہ کے بعد سیدنا عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے اپنے تمام فوجی سرداروں اور لشکریوں کو اسکندریہ میں ٹھہرا کر بلاد و اطراف مصر کی طرف قبضہ و دخل اور انتظام قائم کرنے کے لیے تعینات کیا اور مصر سے فارغ ہو کر تویہ کی جانب توجہ کی۔ جنگ نہاوند فتح مدائن دجلو لاء کے بعد یزدجرد مقام رے میں جا کر مقیم ہوا تھا وہاں کے مرزبان مسمی آبان جادویہ نے یزدجرد کے قیام کو اپنی حکومت و اختیار کے منافی دیکھ کر بے وفائی کی علامات کا اظہار کیا اور یزد جرد رے سے روانہ ہو کر اصفہان چلا گیا‘ اصفہان کے چند روز قیام کے بعد کرمان کی طرف آیا‘ وہاں سے پھر اصفہان میں‘ جب مسلمانوں نے صوبہ اہواز پر تصرف کیا تو یزد جرد مشرقی ایران یعنی خراسان کے شہر مرو میں آ کر مقیم ہوا‘ یہاں اس نے ایک آتش کدہ بنوایا اور اطمینان کے ساتھ رہنے لگا‘ اس کا خیال تھا کہ اہل عرب اب آگے نہ بڑھیں گے‘ اور سرحدی مقامات تک ان کی فتوحات کا سلسلہ ختم ہو جائے گا‘ لیکن اہواز کے تمام و کمال مسلمانوں کے قبضہ میں چلنے جانے اور ہرمزان کے گرفتارہو کر مدینہ چلے جانے کی خبر سن کر اس کو طیش آ گیا اور وہ پھر ایک مرتبہ پوری قوت کے ساتھ مسلمانوں کے استیصال کی غرض سے فوجوں کے فراہم کرنے میں مصروف ہوا‘ اس نے اطراف و جوانب کے امراء کو خطوط لکھے اور مسلمانوں کے مقابلے کے لیے غیرتیں دلا کر آمادہ و مستعد بنایا۔ چنانچہ یزدجرد کی ان کوششوں کے نتیجہ میں یکایک طبرستان‘ جرجان‘ خراسان اصفہان‘ ہمدان‘ سندھ وغیرہ ملکوں اور صوبوں میں مسلمانوں کے خلاف سخت جوش اور مستعدی پیدا ہوئی اور جوق در جوق لشکری لوگ یزدجرد کی خدمت میں آ آ کر جمع ہونے لگے‘ یزد جرد نے فیروز اور بقول دیگر مروان شاہ کو سپہ سالار بنا کر ڈیڑھ لاکھ لشکر جرار کے ساتھ نہاوند کی طرف روانہ کیا‘ یہاں یہ ڈیڑھ لاکھ لشکر جمع ہو رہا تھا اور ادھر مدینہ منورہ میں فاروق اعظم رضی اللہ عنہ بلاد ایران میں پیش قدمی کی اجازت مسلمانوں کو دے چکے تھے‘ انہیں ایام میں مدینے کے اندر خبر پہنچی کہ ڈیڑھ لاکھ کا لشکر جمع ہو گیا ہے۔ فاروق اعظم نے اس لشکر کے مقابلے کے خود جانے کا ارادہ کیا‘ لیکن سیدنا علی رضی اللہ عنہ ‘ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور سیدنا طلحہ نے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے جانے کو مناسب نہ سمجھ کر اس رائے سے اختلاف کیا‘ فاروق اعظم نے ان بزرگوں کی رائے کو منظور کر کے کوفہ کی افواج کا سپہ سالار نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ کو مقرر کر کے حکم دیا کہ کوفہ کے قریب کسی چشمہ پر جا کر قیام کرو۔ ان ایام میں سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ میں اپنے پاس بلوایا ہوا تھا‘ وہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھے‘ ان سے دریافت کیا گیا کہ تم کوفہ میں کس کو اپنا قائم مقام بنا کر آئے ہو‘ انہوں نے عرض کیا کہ عبداللہ بن عبداللہ بن عتبان کو‘ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عبداللہ بن عتبان کو حکم لکھ کر بھیجا کہ کوفہ کی افواج کو نعمان بن مقرن کے ساتھ روانہ کر دو‘ اور فلاں چشمہ پر نعمان بن مقرر کے پاس بھیج دو۔ انہوں نے اس حکم