تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کر رہے ہیں‘ معاویہ نے جو معاملہ تم سے کیا ہے اس میں تمہاری کوئی عزت بھی نہیں‘ اور انصاف بھی یہی ہے‘ پس اگر تم موت پر راضی ہو‘ تو میں اس صلح کو فسخ ۱؎ صحیحبخاریکتابالصلححدیث۲۷۰۴۔ کر دوں اور تیغ تیز کے ذریعہ فیصلہ طلب کروں‘ اور اگر تم زندگی کو عزیز رکھتے ہو‘ تو پھر میں اس صلح پر قائم رہوں۔ یہ سنتے ہی ہر طرف سے آوازیں آنے لگیں‘ کہ صلح قائم رکھئے‘ صلح قائم رکھئے‘ بات یہ تھی‘ کہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ اہل کوفہ کی کم ہمتی اور بیوقوفی سے خوب واقف تھے‘ انہوں نے صرف دھمکی سے ان کو سیدھا کرنا مناسب سمجھا۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اب بلا اختلاف عام عالم اسلام کے خلیفہ ہو گئے‘ سیدنا سعد بن ابی وقاص جو معاملات ملکی سے قطع تعلق کر کے اونٹوں اور بکریوں کے چرانے اور گوشہ نشینی کے عالم میں مصروف عبادت رہتے تھے انہوں نے بھی سیدنا امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی تھی‘ غرض کوئی ایسا قابل تذکرہ شخص باقی نہ رہا جس نے جلد یا کچھ تامل کے بعد سیدنا امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کو خلیفہ وقت تسلیم کر کے بیعت نہ کی ہو۔ بعد انعقاد صلح سیدنا حسن رضی اللہ عنہ چند روز کوفہ میں رہے‘ پھر کوفہ کی سکونت ترک کر کے معہ جملہ متعلقین مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے‘ اہل کوفہ تھوڑی دور تک بطریق مشایعت ہمراہ آئے‘ مدینہ آ کر پھر آپ نے کبھی کسی دوسری جگہ کی سکونت کا قصد نہیں فرمایا۔ زہر کا افسانہ ۵۰ ھ یا ۵۱ ھ میں آپ نے وفات پائی‘ عام طور پر یہ بیان کیا جاتا ہے کہ آپ کو آپ کی بیوی جعدہ بنت الاشعث نے زہر دیا تھا‘ مگر جب کہ خود سیدنا حسن رضی اللہ عنہ اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو بھی تحقیق نہ ہو سکا کہ زہر کس نے دیا اور کیوں دیا تو دوسروں کا حق نہیں ہے کہ وہ سیکڑوں ہزاروں برسوں کے بعد یقینی طور پر اسے مجرم قرار دیں۔ وفات کے وقت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ تک خلافت پہنچی اور تلواریں میانوں سے نکل آئیں اور یہ معاملہ طے نہ ہوا‘ اب میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ نبوت اور خلافت ہمارے خاندان میں نہیں رہ سکتیں‘ یہ بھی ایک اندیشہ ہے کہ سفہائے کوفہ تم کو یہاں سے نکالنے کی کوشش کریں گے تم ان کے فریب میں نہ آنا‘ میں نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے کہا تھا کہ مجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس دفن ہونے کی اجازت دے دیں‘ اس وقت تو انہوں نے مان لیا تھا اب لوگوں کا خیال ہے کہ تم پوچھو گے تو نہ مانیں گی‘ مگر میرے بعد تم ان سے پھر دریافت کرنا‘ اگر وہ اجازت نہ دیں تو اصرار نہ کرنا‘‘۔ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ مجھے بسرو چشم منظور ہے‘ لیکن جب مروان نے یہ خبر سنی کہی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے اجازت دے دی ہے‘ تو وہ مانع ہوا‘ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی مسلح ہو کر چلے‘ مگر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے آ کر سیدنا