تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ارادہ کیا ہے؟ سجاح نے جواب دیا کہ میں مدینہ منورہ پر حملہ کرنا چاہتی ہوں‘ میں نبی ہوں اور سنا ہے کہ آپ بھی نبی ہیں‘ لہذا مناسب یہ ہے کہ ہم دونوں مل کر مدینہ پر حملہ کریں۔ مسیلمہ نے فوراً پیغام بھیجا کہ جب تک سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلم زندہ تھے اس وقت تک تو میں نے آدھا ملک ان کے لیے چھوڑ دیا تھا اور آدھے ملک کو اپنا علاقہ سمجھا تھا‘ اب ان کے بعد تمام ملک پر میرا حق ہے‘ لیکن چونکہ تم بھی نبوت کی مدعی ہو لہذا میں آدھی پیغمبری تم کو دے دوں گا‘ بہتر یہ ہے کہ اپنے لشکر کو وہیں چھوڑ کر تنہا میرے پاس چلی آئو تاکہ تقسیم پیغمبری اور مدینہ پر حملہ آوری کے متعلق تم سے تمام گفتگو اور مشورہ ہو جائے۔ جھوٹی نبیہ کا نکاح سجاح یہ پیغام پاتے ہی مسیلمہ کی طرف روانہ ہو گئی‘ اس نے اپنے قلعہ کے سامنے ایک خیمہ کھڑا کیا‘ سجاح کو اس میں اتارا‘ دونوں کی بات چیت ہوئی‘ سجاح نے مسیلمہ کی پیغمبری کو تسلیم کیا‘ اس پر ایمان لائی‘ پھر دونوں کا نکاح ہو گیا‘ نکاح کے بعد سجاح تین دن تک مسیلمہ کے پاس رہی‘ وہاں سے رخصت ہو کر اپنے لشکر میں آئی تو لشکر والوں نے کہا کہ نکاح کا مہر کہاں ہے‘ یہ تو نے بے مہر کیسا نکاح کیا ہے؟ وہ پھر مسیلمہ کے پاس گئی تو مسلیمہ نے کہا کہ میں نے تیرے مہر میں تیری جماعت کے لیے دو نمازیں یعنی عشاء اور فجر کی نماز معاف کر دی ہے‘ سجاح وہاں سے رخصت ہو کر آئی‘ ہذیل و عقبہ کو یمامہ کی نصف پیداوار وصول کرنے کے لیے چھوڑ کر روانہ ہوئی تھی کہ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ جو بنو تمیم کی طرف بڑھے چلے آ رہے تھے سامنے آ گئے‘ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے لشکر کو دیکھتے ہی سجاح کے ہمراہی فرار ہو گئے‘ اور وہ بہزار وقت اپنے قبیلہ بنی تغلب میں بمقام جزیرہ پہنچ کر گم نامی کی زندگی بسر کرنے لگی۔ سیدنا خالد بن ولید جب نبو تمیم کے علاقہ میں پہنچے تو وہاں کے ان لوگوں سے جو اسلام پر قائم تھے کوئی تعرض نہیں کیا‘ لیکن جو مرتد ہو گئے تھے وہ گرفتار و قتل کئے گئے‘ مرتد اور مسلمانوں کی شناخت اذان کے ذریعہ ہوتی تھی‘ جیسا کہ اوپر فرمان صدیقی میں ذکر آ چکا ہے ۔۔۔۔۔ مالک بن نویرہ کی بستیوں پر بھی اذان کے بعد ہی حملہ ہوا۔ مالک بن نویرہ کا قتل مالک بن نویرہ کا ذکر اوپر آ چکا ہے کہ اس نے وفات نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کی خبر سن کر اظہار مسرت کیا تھا‘ پھر سجاح کے ساتھ بھی اس نے مصالحت کی تھی‘ مگر بعد میں اس کے لشکر سے جدا ہو کر چلا گیا تھا‘ اب جب کہ مالک بن نویرہ گرفتار ہو کر آیا اور سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش کیا گیا تو بعض مسلمانوں نے کہا کہ مالک بن نویرہ کی بستی سے اذان کی آواز جواباً آئی تھی اس لیے اس کو قتل نہیں کرنا چاہیے‘ بعض نے کہا کہ انہوں نے جواباً اذان نہیں کہی‘ یہ خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم کے موافق واجب القتل ہے‘ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے جہاں تک تحقیق و تفتیش کی یقینی اور قطعی شہادت اس معاملہ میں دستیاب نہ ہوئی‘ اس پر طرہ یہ ہوا کہ مالک بن نویرہ نے جب سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے گفتگو کی تو اس کی زبان سے اثناء گفتگو میں کئی بار یہ نکلا کہ تمہارے صاحب نے ایسا فرمایا یا تمہارے صاحب کا ایسا حکم ہے وغیرہ اس ’’ تمہارے صاحب‘‘ سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ