تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
پوتوں اور رشتہ داروں سے بدلہ لیتے تھے اور جب تک انتقام نہ لے لیں چین سے نہیں بیٹھتے تھے۔ اگر سبب عداوت یاد نہ رہے‘ عداوت پھر بھی یاد رہتی تھی‘ بہت سے شخصوں کو صرف اس لیے قتل کرتے تھے کہ ہم کو ان سے دشمنی ہے اور ان کا قتل کرنا ضروری ہے‘ لیکن یہ نہ بتا سکتے تھے کہ ان سے کیوں دشمنی ہے؟ مراسم ماتم جب کوئی شخص مر جاتا تو اس کے عزیز و اقارب اپنا منہ کھسوٹتے اور بال نوچتے اور ہائے وائے کرتے تھے‘ عورتیں بال کھولے سر پر خاک ڈالے جنازہ کے پیچھے پیچھے چلتی تھیں‘ جس طرح ہندوستان میں ہندو لوگ مردہ کے غم میں سر کے بال اور ڈاڑھی مونچھ منڈوا دیتے ہیں عرب جاہلیت میں عورتیں بھی اپنا سر منڈوا دیتی تھیں‘ رونے پیٹنے اور ماتم کرنے کے لیے اجرت پر عورتیں بلوائی جاتی تھیں‘ وہ خوب زور شور سے نوحہ کرتی تھیں دفن سے فارغ ہو کر دسترخوان بچھایا جاتا اور ان نوحہ کرنے والیوں کو کھانا کھلایا جاتا۔ اسلام نے ان تمام مراسم جاہلیت کو مٹایا۔ لیکن تعجب ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں میں تیجا‘ دسواں‘ چالیسواں‘ چھ ماہی اور برسی اب بھی موجود ہے اور عرب جاہلیت کی تقلید میں شہدائے اسلام کا ماتم ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ ان للہ و انا الیہ راجعون۔ توہم پرستی اور ضعیف الاعتقادی جنوں‘ دیووں اور پریوں کے بھی بہت قائل تھے ان کا اعتقاد تھا کہ پریاں انسانی مردوں پر عاشق ہو جاتی ہیں اور جن انسانی عورتوں سے تعلق پیدا کر لیتے ہیں جنوں کو وہ غیر مرئی مخلوق سمجھتے‘ مگر ساتھ ہی یقین رکھتے تھے کہ مجردات اور مادیات سے مل کر اولاد پیدا ہو سکتی ہے چنانچہ اہل عرب کا عقیدہ تھا کہ جرہم انسان اور فرشتے کے تناسل سے پیدا ہوا تھا‘ یہی عقیدہ ان کا شہر سبا کی ملکہ بلقیس کی نسبت تھا عمر بن یربوع کی نسبت اس کا خیال تھا کہ آدمی اور غول بیابانی کے تناسل سے پیدا ہوا تھا۔۱؎ جس اونٹنی کے پانچ بچے ہو چکے ہوں اور پانچواں نر ہو اس کو بحیرہ کہتے اور اس کا کان چھید کر چھوڑ دیتے تھے‘ وہ جہاں چاہے کھاتی چرتی پھرے کوئی اس سے تعرض نہیں کرتا تھا‘ اگر بھیڑ کے نر بچہ پیدا ہوتا اس کو بتوں پر چڑھا دیتے‘ مادہ ہوتا تو اپنے لیے رکھتے‘ اگر دو بچے نر و مادہ پیدا ہوتے تو اس کی قربانی نہیں کرتے اس کا نام وصیلہ ہوتا تھا جس نر اونٹ کی جفتی سے دس بچے پیدا ہو چکے ہوتے اس کی بڑی عزت کرتے‘ نہ اس پر بوجھ لادتے نہ خود سوار ہوتے اور سانڈ کی طرح آزاد چھوڑ دیتے تھے اور اس کا نام حام ہوتا ہے۔ بتوں کے سامنے یا بت خانوں کی ڈیوڑھی پر تین تیر رکھے رہتے تھے‘ ایک پر ’’لا‘‘ دوسرے پر ’’نعم‘‘ لکھا ہوتا‘ اور تیسرا خالی ہوتا‘یہ تیر ایک ترکش میں ہوتے‘ جب کوئی خاص اور اہم کام درپیش ہوتا تو جاتے اور ترکش میں سے ایک تیر نکالتے اگر ’’لا‘‘ والا تیر نکل آتا تو اس کام سے باز رہتے۔ ’’نعم‘‘ والا نکلتا تو اجازت سمجھتے‘ خالی تیر نکلتا تو پھر وہ دوبارہ تیر نکالتے یہاں تک کہ ’’لا‘‘ و ’’نعم‘‘ میں سے کوئی ایک نکل آتا۔ رتم ایک قسم کا درخت ہے جب کہیں سفر میں جاتے تو جاتے وقت رتم کی کسی باریک شاخ میں گرہ لگا جاتے‘ سفر سے واپس آ کر دیکھتے کہ اس شاخ میں گرہ لگی ہوئی ہے یا کھل گئی‘ اگر گرہ لگی ہوئی دیکھتے تو سمجھتے کہ ہماری بیوی پاک دامن رہی ہے‘اگر گرہ کھلی ہوئی پاتے تو یقین کر لیتے کہ عورت نے ہماری غیر موجودگی میں ضرور