تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے مرض کی شدت اور پھر انتقال کا حال سن کر سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ اور ان کے تمام لشکر والے مدینے میں چلے آئے تھے اور فوجی علم حجرہ مبارک کے دروازے پر کھڑا کر دیا گیا تھا‘ نماز جنازہ چونکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کے حجرے میں جہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا انتقال ہوا اور جہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر تیار ہوئی تھی پڑھی گئی‘ لہذا ظاہر ہے کہ تمام مسلمان جو مدینے میں موجود تھے ایک مرتبہ نماز نہ پڑھ سکتے تھے‘ پھر یہ نماز جنازہ کسی کے زیر امامت بھی ادا نہیں ہوئی بلکہ الگ الگ ادا کی گئی‘ لہٰذا یہ کسی طرح ۱؎ سقیفہ بنی ساعدہ کے اس واقعہ کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : صحیحبخاریکتابفضائلاصحابالنبی صلی اللہ علیہ و سلم حدیث۳۶۶۸۔سیرتابنہشامص۶۱۱تا۶۱۵۔ ۲؎ جامعترمذیابوابالجنائزباب۳۲صححہالالبانیa۔سیرتابنہشامص۶۱۷۔ ممکن ہی نہ تھا کہ تمام مسلمان جو مدینہ میں موجود تھے تمام لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ ‘ تمام عورتیں‘ تمام لڑکے‘ تمام غلام گروہ در گروہ حجرہ میں آ آ کر نماز جنازہ پڑھتے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم انتقال کے بعد فوراً ہی دفن کر دئیے جاتے‘ نماز جنازہ کا سلسلہ یقینا اگلے دن تک برابر جاری رہا ہو گا اور اس لیے اس پر ذرا بھی تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات دو شنبہ کو ہوئی اور آپ اگلے روز سہ شنبہ کو دفن کئے گئے‘ بعض ضعیف روایتوں میں یہ بھی مذکور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سہ شنبہ اورچہار شنبہ کی درمیانی شب میں دفن کئے گئے‘ جو اسلامی حساب کے موافق چہار شنبہ کی شب تھی‘ تب بھی کسی حیرت اور تعجب کا مقام نہیں ہے‘ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دفن میں اس طرح ۳۶ گھنٹہ کا فاصلہ زیادہ سے زیادہ مانا جا سکتا ہے‘ اور وہ جو اس حالت کے اعتبار سے جو اوپر مذکورہ ہوئی کچھ زیادہ نہیں ہے۔ حلیہ مبارک آپ صلی اللہ علیہ و سلم نہ بہت طویل القامت تھے‘ نہ پست قد‘ مگر دوسرے آدمیوں کے مجمع میں سب سے بالا معلوم ہوتے تھے‘ رنگ گورا‘ پرملاحت‘ سرخی مائل تھا‘ سر مبارک بڑا‘ ڈاڑھی خوب بھری ہوئی‘ بال سیاہ قدرے پیچیدہ‘ آنکھیں گول بڑی‘ سیاہ اور پر رونق‘ سر کے بال سیدھے اکثر کان کی لو تک اور کبھی کندھوں تک اور کبھی کان کی لو سے بھی اوپر رہتے تھے۔ بھویں باہم پیوستہ ایک باریک سی رگ درمیان میں فاصل تھی‘ کہ غصہ کے وقت ظاہر ہوتی تھی‘ آنکھوں کی سفیدی میں سرخ ڈورے بھی تھے‘ رخسار نرم اور پرگوشت تھے‘ سر میں تیل ڈالتے تھے‘ اور آنکھوں میں سرمہ لگاتے تھے‘ دانت مثل مروارید سفید و چمکدار تھے‘ تبسم کے سوا کبھی کھلکھلا کر نہ ہنستے تھے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نہایت خندہ رو‘ شیریں کلام‘ فصیح‘ شجاع اور جامع جمیع کمالات انسانیہ تھے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت صلی اللہ علیہ و سلم تھی‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنا کام خود اپنے ہاتھ سے کرتے تھے‘ کسی کا سوال رد نہ کرتے تھے۔۱؎ اولاد امجاد سوائے سیدنا ابراہیم کے جو ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنھا کے پیٹ سے پیدا ہوئے تھے