تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی رنگت سفید تھی‘ لیکن سرخی اس پر غالب تھی‘ قد نہایت لمبا تھا‘ پیادہ پا چلنے میں معلوم ہوتا تھا کہ سوار جا رہا ہے‘ رخساروں پر گوشت کم تھا‘ ڈاڑھی گھنی‘ مونچھیں بڑی‘ سر کے بال سامنے سے اڑ گئے تھے‘ ابن عساکر رضی اللہ عنہ نے روایت کی ہے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ دراز قد موٹے تازے تھے‘ رنگت میں سرخی غالب تھی‘ گال پچکے ہوئے‘ مونچھیں بڑی تھیں اور ان کے اطراف میں سرخی تھی‘ آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ شریفہ ابوجہل کی بہن تھیں‘ اس رشتے سے آپ رضی اللہ عنہ ابوجہل کو ماموں کہا کرتے تھے۔ خلافت فاروقی رضی اللہ عنہ کے اہم واقعات ۲۳ جمادی الثانی ۱۳ ھ بروز سہ شنبہ مدینہ منورہ میں تمام مسلمانوں نے بلا اختلاف سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی‘ ۲۲ جمادی الثانی ۱۳ ھ بروز دو شنبہ مثنیٰ بن رضی اللہ عنہ حارثہ کے آنے اور حالات سنانے کے بعد سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو بلا کر جو حکم دیا تھا اس کے الفاظ یہ تھے۔: مجھے قوی امید ہے کہ میں آج ہی مر جائوں گا‘ پس میرے مرنے کے بعد تم کل کا دن ختم کرنے سے پہلے پہلے مثنیٰ کے ساتھ لوگوں کو لڑائی پر روانہ کر دینا‘ تم کو کوئی مصیبت تمہارے دینی کام اور حکم الٰہی سے غافل نہ کرنے پائے‘ تم نے دیکھا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد کیا کیا تھا حالانکہ وہ سب سے بڑی مصیبت تھی‘ جب اہل شام پر فتح حاصل ہو جائے تو اہل عراق کو عراق کی طرف واپس بھیج دینا‘ کیونکہ اہل عراق‘ عراق ہی کے کاموں کو خوب سرانجام دے سکتے ہیں اور عراق ہی میں ان کا دل خوب کھلا ہوا ہے۔ ان الفاظ سے ایک یہ حقیقت بھی خوب سمجھ میں آ جاتی ہے کہ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے وفات نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد جو کچھ کیا دینی کام اور دینی مقصد کو مقدم سمجھ کر کیا‘ مرتے وقت بھی ان کو دینی کاموں ہی کی فکر تھی‘ اپنی اولاد و ازواج کے حق میں کوئی وصیت نہیں فرمائی‘ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے بیعت خلافت لینے کے بعد لوگوں کوجہاد کی ترغیب دی‘ مہاجرین و انصار کو خاص طور پر مخاطب کر کے جہاد فی سبیل اللہ کے لیے پکارا‘ مگر مجمع نے آمادگی اور جوش کا اظہار نہ کیا‘ تین دن تک سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو جمع کر کے جہاد کا وعظ سنایا مگر لوگوں کی طرف سے خاموشی رہی‘ چوتھے روز ابوعبیدہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ نے جہاد عراق کے لیے اپنی آمادگی ظاہر کی‘ ان کے بعد سعد بن عبید رضی اللہ عنہ انصاری کھڑے ہوئے‘ پھر سیدنا سلیط بن قیس رضی اللہ عنہ اور اسی طرح بہت سے لوگ یکے بعد دیگرے آمادہ ہو گئے‘ اورایک لشکر عراق کے لیے تیار ہو گیا‘ سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے ابوعبیدہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہی کو جو سب سے پہلے آمادہ ہوئے تھے اس لشکر کا سردار بنا کر مثنی بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے ہمراہ عراق کی جانب روانہ کیا۔ تین دن تک لوگوں کا خاموش رہنا مؤرخین کو خاص طور پر محسوس ہوا ہے اور انہوں نے اس کا سبب یہ بیان کیا ہے کہ سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے پہلے ہی دن چونکہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی معزولی کا فرمان لکھ کر شام کے ملک کی طرف بھیجا تھا‘ لہذا لوگ ان سے ناخوش ہو گئے تھے اور اسی لیے ان کے آمادہ کرنے سے آمادہ نہیں