تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اور چاہیں تو خود بھی اسلام قبول کر کے جنگ و جدل کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیں۔۱؎ رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے صحابہ رضی اللہ عنہ کی والھانہ محبت عروہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے باتیں کر رہا تھا تو وہ اپنا ہاتھ پھیلا پھیلا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ڈاڑھی کے قریب لے جاتا تھا‘ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو اس کی یہ حرکت ناگوار گذری‘ انہوں نے اپنا قبضہ شمشیر اس کے ہاتھ پر مارا اور مؤدبانہ کلام کرنے کے لیے کہا‘ عروہ جب قریش مکہ کے پاس واپس گیا تو کہا یا معشر قریش! میں نے ہراقلہ روم اور اکاسرہ ایران کے دربار دیکھے ہیں‘ میں نے کسی بادشاہ کو اپنے ہمراہیوں میں اس قدر محبوب و مکرم نہیں پایا جس قدر محمد صلی اللہ علیہ و سلم اپنے اصحاب رضی اللہ عنھم میں محبوب و باعزت ہیں‘ اصحاب محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ حالت ہے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے وضو کا پانی زمین پر نہیں گرنے دیتے‘ جب وہ کلام کرتے ہیں تو سب خاموشی سے سنتے ہیں اور تعظیم کی راہ سے ان کی طرف نگاہ بھر کر نہیں دیکھتے‘ یہ لوگ کسی طرح محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتے‘ محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے جو بات تمہارے سامنے پیش کی ہے تم اس کو قبول کر لو اور مناسب یہی ہے کہ صلح کو غنیمت جانو۔ اس کے بعد قریش مکہ نے سہیل بن عمرو کو اپنا مختار کل بنا کر بھیجا اور اس کو سمجھا دیا کہ صلح صرف اس طرح ہو سکتی ہے کہ اس سال محمد صلی اللہ علیہ و سلم معہ اپنے ہمراہیوں کے واپس چلے جائیں اور آئندہ سال آ کر عمرہ کریں… رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب دور سے سہیل کو آتے دیکھا تو فرمایا کہ معاملہ اب سہل ہو ۱؎ صحیحبخاریکتابالشروطحدیث۲۷۳۱و۳۷۳۲۔ گیا‘ قریش نے جب اس شخص کو بھیجا ہے تو ان کی نیت مصالحت کی ہے‘ چنانچہ سہل نے شرائط صلح پیش کئے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان شرائط کو قبول فرما‘ لیا اسی وقت سیدنا علی رضی اللہ عنہ صلح نامہ لکھنے کے لیے طلب کے گئے‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے دستاویز کی پیشانی پر بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھا تو سہیل نے کہا کہ ہم رحمن کو نہیں جانتے تم ہمارے دستور کے موافق باسمک اللھم لکھو‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اچھا ایسے ہی لکھ دو‘ جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا نام ’’محمد رسول اللہ لکھا صلی اللہ علیہ و سلم تو سہیل نے اس پر بھی اعتراض کیا اور کہا کہ اگر ہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو رسول تسلیم کرتے تو پھر یہاں تک نوبت ہی کیوں پہنچتی تم صرف ’’محمد بن عبداللہ‘‘ ہی لکھو‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ میں اللہ کا رسول ہوں خواہ تم مانو یا نہ مانو‘ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ سہیل کی خواہش کے مطابق اس لفظ کو کاٹ دو‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ مجھ سے یہ نہ ہو سکے گا کہ میں لفظ رسول اللہ کو قلم سے کاٹوں‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ لائو میں اپنے ہاتھ سے کاٹے دیتا ہوں‘ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خود اپنے ہاتھ سے اس لفظ پر قلم پھیر دیا۔۱؎ شرائط اس صلح نامہ یا عہد نامہ کے شرائط یہ تھے۔