تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دوسری طرف قریش نے اپنی صفوف جنگ کو آراستہ کیا‘ انہوں نے سو سواروں کی سرداری خالد بن ولید رضی اللہ عنہ (یہ ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے) کو دے کر میمنہ پر تعینات کیا اور سو سوار عکرمہ رضی اللہ عنہ بن ابوجہل (یہ بھی ابھی تک مسلمان نہ ہوئے تھے) کو دے کر میسرہ پر مقرر کیا۔ بنی عبدالدار میں قدیم الایام سے قریش کی علم برداری چلی آتی تھی‘ ابوسفیان نے بنی عبدالدار کو جوش دلانے کے لیے کہا کہ تم اگرچہ قدیم سے قریش میں علم برداری پر مامور ہو‘ لیکن جنگ بدر میں تمہاری علم برداری کی جو نحوست ظاہر ہوئی ہے وہ مجبور کرتی ہے کہ علم برداری کسی دوسرے کو سپرد کر دیں‘ اگر تم وعدہ کرو کہ علم برداری کی نازک خدمات بخوبی انجام دو گے تو علم کو اپنے پاس رکھو‘ ورنہ واپس کر دو‘ بنو عبدالدار نے علم نہیں دیا اور انتہائی بہادری دکھانے کا وعدہ کیا۔ مشرکین کے تیر اندازوں کا سردار عبداللہ بن ربیعہ تھا‘ ادھر کم از تین ہزار کا با سازو سامان جرار ۱؎ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی تلوار ہاتھ میں لے کر فرمایا کہ کون یہ تلوار مجھ سے لیتا ہے؟ … اور اس کا حق ادا کرے گا؟ … ابودجانہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اسے لے کر اس کا حق ادا کروں گا۔ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے تلوار لینے کے بعد) ابودجانہ رضی اللہ عنہ نے کفار پر شدت سے حملہ کیا اور بہت سے کافروں کے سر پھاڑ دئیے۔ صحیحمسلمکتابالفضائلبابفضائلابیدجانہ لشکر تھا‘ جو قریش اور دوسرے قبائل کے انتخابی بہادروں اور تجربہ کار جاں بازوں پر مشتمل تھا‘ ادھر صرف سات سو یا سات سو سے بھی کچھ کم آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی فوج میں تھے‘ جن میں پندرہ سال کی عمر تک کے لڑکے بھی تھے۔ لشکر اسلام میں صرف دو گھوڑے تھے ۱؎…غرض تعداد میں مسلمان کفار کے مقابلہ میں چوتھائی سے بھی کم تھے‘ اور سامان جنگ میں تو عشر عشیر بھی نہ تھے۔ جنگ شروع ہو گئی لڑائی کی ابتداء اس طرح ہوئی کہ سب سے پہلے ابو عامر راہب ( جو مدینہ کا باشندہ قبیلہ اوس سے تعلق رکھتا تھا اور اپنی قوم میں بڑا بزرگ سمجھا جاتا تھا‘ مدینہ میں مسلمانوں کے آنے سے آتش حسد میں جل بھن گیا تھا اور مکہ میں جا کر رہنے لگا تھا‘ وہ کفار کے ساتھ آیا تھا اور اس کا خیال تھا کہ میں میدان جنگ میں قبیلہ اوس کے لوگوں کو اپنی طرف بلا لوں گا) لشکر کفار سے نکل کر میدان میں آیا اور بنو اوس کو آواز دی‘ مگر انصار رضی اللہ عنہ نے اس کو دھتکار دیا اور وہ شرمندہ و روسیاہ ہو کر رہ گیا‘۲؎ اس کے بعد طرفین سے حملہ آوری ہوئی۔ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ‘ سیدنا ابودجانہ رضی اللہ عنہ وغیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے وہ وہ جواں مردانہ و شجاعانہ کار ہائے نمایاں ظاہر کئے کہ کفار کے حوصلے پست ہو گئے‘ سیدنا ابودجانہ رضی اللہ عنہ کفار کو قتل کرتے اور صفوں کو چیرتے ہوئے اس مقام تک پہنچ گئے کہ ہند بنت عتبہ زوجہ ابوسفیان ان کی زد پر آ گئی اور اس نے اپنے آپ کو قتل ہوتے ہوئے دیکھ کر چیخ ماری‘ سیدنا ابودجانہ رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھ کر کہ عورت ہے فوراً اپنا ہاتھ روک لیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تلوار عورت کے خون سے آلودہ نہ ہو‘۳؎اس طرح ہند بنت عتبہ کی جان بچی۔ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت