تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
اللہ عنہ کو بطور ایلچی ابوسفیان کے پاس روانہ کیا‘ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی مکہ میں سب سے اول ابان بن سعید بن العاص سے ملاقات ہوئی‘ ابان نے فوراً ان کو اپنی حمایت میں لے لیا‘ اور ابوسفیان اور دوسرے سرداران قریش کے پاس لے گیا‘ سرداران قریش نے سیدنا عثمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا پیام سن کر کہا خانہ کعبہ کا طواف کر لو‘ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں بغیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے تنہا طواف نہیں کر سکتا‘ یہ سن کر قریش برہم ہوئے اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو مکہ میں روک لیا۔ بیعت رضوان سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے جب واپس آنے میں توقف ہوا تو مسلمانوں میں یہ خبر مشہور ہوئی کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو مکہ والوں نے شہید کر دیا ہے‘ اس خبر کے سنتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جب تک سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کا بدلہ نہ لے لیں گے یہاں سے نہ ٹلیں گے‘ چنانچہ اسی وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے اور تمام صحابہ رضی اللہ عنھم سے جان نثاری کی بیعت لی‘ یہ بیعت‘ بیعت رضوان کے نام سے مشہور ہوئی‘ اس کا ذکر قرآن شریف میں اس طرح ہے کہ {لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ} (الفتح : ۴۸/۱۸) ’’جس وقت مسلمانوں نے اے رسول تیرے ہاتھ پر درخت کے نیچے بیعت کی تو اللہ تعالیٰ تعالی ان سے خوش ہو گیا۔‘‘۱؎ مگر تھوڑی ہی دیر بعد سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ مکہ سے تشریف لے آئے اور انہوں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اسی قسم کی بیعت کی‘ کفار مکہ کے مآل اندیش اور سمجھدار لوگوں نے تو لڑائی کرنا پسند نہ کیا تھا لیکن کثرت ان میں ایسے لوگوں کی تھی جو فساد پر آمادہ تھے‘ اب مسلمانوں کی جنگ پر آمادگی اور تیاری ۱؎ بیعت رضوان کی کچھ تفصیل صحیحبخاریکتابفضائلاصحابالنبی صلی اللہ علیہ و سلم حدیث۳۶۹۹میں موجود ہے۔ کو دیکھ کر یہ فسادی لوگ بھی کچھ کچھ صلح و آشتی کی طرف مائل ہوئے‘ چنانچہ مکہ والوں نے قبیلہ بنو ثقیف کے سردار عروہ بن مسعود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں بھیجا‘ عروہ نے آ کر کہا کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ و سلم ) قریش کے تمام قبائل تمہارے مقابلے کے لیے آمادہ و مستعد ہیں‘ تمہارے ساتھ جو لوگ ہیں مقابلے کے وقت یہ سب تم کو تنہا چھوڑ کر بھاگ جائیں گے اور قریش کے سامنے ہرگز نہ ٹھہر سکیں گے۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عروہ کا یہ کلام سن کر نہایت سخت جواب دیا‘ عروہ خاموش ہو کر رہ گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عروہ سے کہا کہ ہم لڑائی کے ارادہ سے نہیں بلکہ عمرے کے ارادے سے آئے ہیں‘ لیکن اگر مکہ والے لڑائی پر آمادہ ہیں تو میں اپنے امر نبوت کے لیے اس وقت تک ان سے لڑوں گا جب تک میری ہڈیاں گوشت سے برہنہ ہو جائیں‘ یا اللہ تعالیٰ اپنا حکم صادر نہ فرمائے‘ مکہ والے اگر چاہیں تو ایک مدت کے لیے مجھ سے التوائے جنگ کا معاہدہ کر سکتے ہیں‘ وہ مجھ کو تبلیغ و ہدایت کا کام کرنے دیں