تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
۱؎ صحیحبخاریکتابالمغازیحدیث۴۲۵۱۔صحیحمسلمکتابالنکاحبابتحریمالنکاحالمحرم۔ ۲؎ صحیحمسلمکتابالایمانبابکونالاسلامیھدمماقبلہ اس روایت میں صرف عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کا ذکر ہے‘ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا نہیں۔ ہجرت کا آٹھواں سال ملک عرب میں اب اسلام کو بظاہر کوئی خطرہ نہ رہا تھا‘ اسلام کے قبول کرنے اور شرک سے بیزار ہونے میں جان و مال کا خطرہ لازمی نہ تھا‘ اندرونی طاقتیں یکے بعد دیگرے سب اپنا اپنا زور اسلام کے خلاف صرف کر کے مایوس ہو چکی تھیں‘ اسلام ملک عرب کے اندر اب خود سب سے بڑی طاقت بن چکا تھا‘ جوں جوں اسلام کی قوت و طاقت مسلم ہوتی گئی ملک عرب میں فتنہ و فساد کم ہوتے گئے‘ تاہم قریش مکہ جو تمام ملک عرب میں خصوصی عزت و امتیاز رکھتے تھے ابھی تک کفرو شرک پر قائم اور مسلمانوں کی مخالفت میں سرگرم تھے‘ منافقین مدینہ‘ یہود ان خیبر‘ مشرکین مکہ تینوں دشمنوں نے ملک عرب کے اندرونی قبائل کو مسلمانوں کے خلاف ابھار ابھار کر ہر مرتبہ نتیجہ میں ناکامی و نامرادی دیکھی تو اب انہوں نے ایران و روم کی شہنشاہیوں اور ایرانی و رومی سرداروں کو مسلمانوں کیخلاف برانگیختہ کرنے کی کوششیں اور سازشیں شروع کیں‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی ان خطرات سے بے خبر نہ تھے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان تمام سلاطین کے نام جو ملک عرب کے اردگرد تھے دعوتی خطوط روانہ کئے‘ ان دعوتی خطوط نے اکثر درباروں میں بہت ہی اچھا اثر کیا‘ اور دشمنوں کی ریشہ دوانیوں کے تار و پود کو توڑ کر رکھ دیا‘ لیکن بعض سلاطین جو دشمنوں کی سازشوں اور کوششوں سے متاثر و مسموم ہو چکے تھے بجائے اس کے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت پر صلح و سلامتی کی طرف متوجہ ہوتے اور بھی زیادہ مخالفت و عداوت پر مستعد ہو گئے‘ اور مسلمانوں کے لیے لازمی ہو گیا کہ ان بیرونی حملوں سے محفوظ رہنے کی تدبیریں عمل میں لائیں۔ اگر کسی بیرونی بادشاہ کا حملہ مدینہ پر ہو جاتا تو تمام ملک عرب کا از سر نو پھر مخالفت پر مستعد ہو جاتا اور مسلمانوں کا کچلا جانا یقینی تھا۔ جنگ موتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جو تبلیغی و دعوتی خطوط سلاطین کے نام لکھے تھے ان میں ایک خط حارث بن عمیر رضی اللہ عنہ ازدی کے ہاتھ حاکم بصری کے نام روانہ کیا تھا‘ حارث بن عمیر رضی اللہ عنہ ازدی روانہ ہو کر ابھی بصری تک نہ پہنچے تھے‘ سرحد شام کے قریب مقام موتہ میں پہنچنے پائے تھے کہ وہاں کے حاکم شرجیل بن عمرو غسانی نے جو قیصر روم کی طرف سے اس علاقہ کا صوبہ دار تھا حارث رضی اللہ عنہ کو گرفتار کر لیا‘ اور یہ معلوم کر کے کہ یہ حاکم بصری کے پاس