تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اور اس کی روح ہیں۔‘‘ ۲؎ سیرت ابن ہشام ملخصاً بہ حوالہ الرحیق المختوم … نجاشی نے عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی گفتگو سن کر زمین سے ایک تنکا اٹھایا اور کہنے لگا کہ ’’اللہ کی قسم! جو کچھ تم نے کہا ہے‘ عیسیٰ علیہ السلام اس سے اس تنکے کے برابر بھی زیادہ نہ تھے۔‘‘ اس پر پادریوں نے ’’ہونہہ‘‘ کی آواز لگائی۔ نجاشی نے کہا : ’’اگرچہ تم ہونہہ کہو۔‘‘ پھر اس نے مسلمانوں سے کہا : ’’جائو! تم لوگ میرے ملک میں امن و امان سے رہو۔ جو تمہیں گالی دے گا‘ اس پر تاوان لگایا جائے گا۔ مجھے گوارا نہیں کہ تم میں سے میں کسی آدمی کو ستائوں اور اس کے بدلہ میں مجھے سونے کا پہاڑ مل جائے۔‘‘ پھر اس نے کفار کے تحائف واپس کروا دیئے اور کہا کہ ’’اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ نے جب مجھے میرا ملک واپس کیا تھا تو مجھ سے کوئی رشوت نہیں لی تھی کہ میں اس کی راہ میں رشوت لوں…‘‘ ام سلمیٰ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں کہ اس کے بعد ہم نجاشی کے پاس ایک اچھے ملک میں ایک اچھے پڑوسی کے زیر سایہ مقیم رہے۔ (حوالہ مذکورہ) اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا صبر و شکر کے ساتھ خاموش رہنا سب بیان کر دیا۔ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا ہونے کے علاوہ رضاعی بھائی بھی تھے خون اور دودھ کے جوش نے ان کو از خود رفتہ کر دیا وہ اول خانہ کعبہ میں گئے وہاں طواف سے فارغ ہو کر سیدھے اس مجمع کی طرف متوجہ ہوئے جہاں ابوجہل بیٹھا ہوا باتیں کر رہا تھا۔ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ بہت بڑے پہلوان‘ جنگ جو اور عرب کے مشہور بہادروں میں شمار ہوتے تھے‘ انہوں نے جاتے ہی ابوجہل کے سر پر اس زور سے کمان ماری کہ اس کا سر پھٹ گیا اور خون بہنے لگا‘ پھر کہا کہ میں بھی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے دین پر ہوں اور وہی کہتا ہوں جو وہ کہتا ہے‘ اگر تجھ میں کچھ ہمت ہے تو اب میرے سامنے بول ‘ ابوجہل کے ساتھیوں کو غصہ آیا اور وہ اس کی حمایت میں اٹھے‘ مگر ابوجہل سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی بہادری سے اس قدر متاثر اور مرعوب تھا کہ اس نے خود ہی اپنے حمائیتیوں کو بھی یہ کہہ کر روک دیا کہ واقعی مجھ ہی سے زیادتی ہو گئی تھی‘ ۱؎ ا گر حمزہ رضی اللہ عنہ مجھ سے اپنے بھتیجے کا انتقام نہ لیتے تو بے حمیت شمار ہوتے‘ غالباً ابوجہل کو سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کا کلام سن کر یہ اندیشہ بھی پیدا ہو گیا تھا کہ کہیں یہ اس طیش و غضب کی وجہ سے ضد میں آ کر مسلمان ہی نہ ہو جائیں‘ اور اسی لیے اس نے ایسی بات سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کو سنانے کے لیے کہی کہ بات یہیں ختم ہو کر رہ جائے اور حمزہ رضی اللہ عنہ اسلام کی طرف متوجہ نہ ہو سکیں۔ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ ابوجہل کی مزاج پرسی کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے اور کہا کہ ’’بھتیجے تم یہ سن کر خوش ہو گے کہ میں نے ابوجہل سے تمہارا بدلہ لے لیا۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ چچا! میں ایسی باتوں سے خوش نہیں ہوا کرتا ہاں اگر آپ مسلمان ہو جائیں تو مجھ کو بڑی خوشی حاصل ہو۔‘‘ یہ سن کر سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ نے اسی وقت اسلام قبول کر لیا‘ سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے سے مسلمانوں کی آفت رسیدہ جمعیت کو بڑی قوت اور امداد حاصل ہوئی۔ یہ نبوت کے چھٹے سال کا واقعہ ہے‘ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دار ارقم میں تھے‘ قریش مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں بہت ہی گستاخ اور بے باک ہو گئے تھے‘ اب سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے نے ان کو کسی قدر محتاط اور مؤدب بنا دیا اور لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں گستاخیاں