تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
۱۔ مسلمان اس سال عمرہ نہ کریں گے‘ آئندہ سال آ کر عمرہ کریں گے‘ مکہ میں داخل ہوتے وقت سوائے تلوار کے کوئی ہتھیار ان کے پاس نہ ہو گا‘ تلوار بھی نیام کے اندر ہو گی اور تین دن سے زیادہ مکہ میں قیام نہ کریں گے۔ ۲۔ صلح کی میعاد دس سال ہو گی‘ اس عرصہ میں کوئی فریق دوسرے فریق کے جان و مال سے قطعا متعرض نہ ہو گا‘ باہم امن و امان کے ساتھ رہیں گے۔ ۳۔ عرب کی ہر ایک قوم اور ہر ایک قبیلہ کو اختیار ہو گا کہ وہ جس فریق کے ساتھ چاہے ہم عہد ہو جائے‘ ان ہم عہد قبائل پر بھی اس صلح نامہ کی شرائط اسی طرح نافذ ہوں گی‘ دونوں فریق قبائل کو اپنا ہم عہد اور حلیف بنانے میں آزاد ہوں گے۔ ۴۔ اگر قریش میں سے کوئی شخص بلا اجازت اپنے ولی کے مسلمانوں کے پاس چلا جائے گا تو قریش کی طرف واپس کیا جائے گا‘ لیکن اگر کوئی مسلمان قریش کے پاس آ جائے گا تو وہ واپس نہیں کیا جائے گا۔۲؎ ۱؎ صحیحبخاریکتابالشروطحدیث۲۷۳۱۲۷۳۲۔ ۲؎ سیرت ابن ہشام ص ۴۵۳ و ۴۵۴۔ معاہدہ صلح کاردعمل اس معاہدہ کی چوتھی شرط صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو سخت ناگوار اور گراں معلوم ہوتی تھی‘ اتفاق سے ابھی عہد نامہ لکھا ہی جا رہا تھا کہ خود سہیل کا بیٹا ابوجندل رضی اللہ عنہ جو مسلمان ہو گیا تھا اور اس جرم میں پابند سلاسل کر دیا گیا تھا کہ کسی طرح قید سے نکل کر اور بھاگ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں پہنچا۔ سیدنا ابوجندل رضی اللہ عنہ کو کفار نے جرم اسلام کے سبب سخت سے سخت جسمانی ایذائیں دی تھیں‘ ان کے جسم پر زخموں کے نشان اور تازہ زخم موجود تھے‘ انہوں نے وہ زخم دکھائے اور فریاد کی کہ مجھ کو ضرور اپنے ساتھ مدینے لے چلیے‘ سہیل نے کہا کہ عہد نامہ کی شرط کے موافق ابوجندل رضی اللہ عنہ ہم کو واپس ملنا چاہئے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سہیل کو سمجھایا مگر وہ راضی نہ ہوا‘ بالآخر ابوجندل رضی اللہ عنہ سہیل کے سپرد کئے گئے‘ سہیل وہیں سے ابوجندل رضی اللہ عنہ کو مارتا ہوا مکہ کی طرف لے چلا۔ اس نظارہ کو دیکھ کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بیتاب ہو گئے‘ فوراً رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں پہنچ کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نبی برحق نہیں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا لاریب میں نبی برحق ہوں‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کیا ہم مسلمان نہیں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بیشک تم مسلمان ہو‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پھر کہا کیا وہ لوگ مشرک نہیں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہ ضرور مشرک ہیں‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا پھر ہم دین کے معاملہ میں ایسی ذلت کیوں گوارا کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میں اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہوں‘ اس کے حکم کی مخالفت اور بدعہدی نہیں کر سکتا‘ وہ مجھے ہرگز ذلیل نہیں کرے گا۔ اس کے بعد جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا غصہ فردہوا تو وہ اپنی اس جرئات و گستاخی پر بہت ہی پشیمان ہوئے‘ زندگی بھر توبہ و استغفار کرتے اور غلام آزاد کرتے رہے۔۱؎