تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
و سلم تھے‘ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے یہ لفظ سن کر غصہ سے فرمایا کیا وہ تیرے صاحب نہ تھے‘ اس پر اس نے کوئی مناسب جواب نہیں دیا‘ طبری کی روایت کے موافق سیدنا ضرار بن الازور رضی اللہ عنہ اس وقت شمشیر بدست کھڑے تھے انہوں نے سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کا اشارہ پاتے ہی اس کا سر اڑا دیا۔ یہ میدان جنگ کا نہایت معمولی سا واقعہ تھا لیکن مورخین کو اس کا خاص طور پر اس لیے ذکر کرنا پڑا کہ سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بھی سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی فوج میں شامل تھے اور وہ انہیں لوگوں میں تھے جو یہ کہتے تھے کہ مالک بن نویرہ کی بستی سے اذان کی آواز آئی تھی لہذا مالک بن نویرہ کو قتل نہیں کرنا چاہیے۔ بعض مورخین نے یہ بھی لکھا ہے کہ مالک بن نویرہ کو سیدنا خالد رضی اللہ عنہ بن ولید نے قتل نہیں کرایا بلکہ انہوں نے مزید تحقیق حال کے لیے مالک بن نویرہ کو ضرار رضی اللہ عنہ بن الازور کی حراست میں دے دیا تھا اور اتفاقاً رات کے وقت دھوکے سے مالک بن نویرہ ضرارا بن رضی اللہ عنہ الازور کے ہاتھ سے قتل ہوا۔ بہرحال سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بہت ناراض ہوئے اور انہوں نے اپنی ناراضی کا اظہار اس طرح کیا کہ وہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے بلا اجازت لیے خفا ہو کر مدینے میں چلے آئے اور یہاں آ کر شکایت کی کہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ مسلمانوں کو قتل کرتا ہے‘ سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ اور دوسرے مسلمانوں نے مدینہ میںجب یہ بات سنی تو خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے متعلق سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے شکایت کی اور کہا کہ خالد رضی اللہ عنہ کو معزول کر کے اس سے قصاص لینا چاہیے۔ مدینہ منورہ میں سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کے متعلق عام ناراضی اس لیے بھی پھیل گئی اور قتل مسلم کا الزام اس لیے اور بھی ان پر تھپ گیا کہ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے بعد میں مالک بن نویرہ کی بیوی سے نکاح کر لیا تھا‘ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے یہ سب کچھ سن کر سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کو مجرم قرار دیا کہ خالد رضی اللہ عنہ کی بلا اجازت کیوں لشکر سے جدا ہو کر چلے آئے‘ ان کو حکم دیا گیا کہ واپس جائیں اور خالد رضی اللہ عنہ کے لشکر میں شامل ہو کر ان کے ہر ایک حکم کو بجا لائیں چنانچہ ان کو واپس جانا پڑا۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ رضی اللہ عنھم کو سمجھایا کہ خالد رضی اللہ عنہ پر زیادہ سے زیادہ ایک اجتہادی غلطی کا الزام عائد ہو سکتا ہے‘ فوجی نظام اور آئین جنگ کو مدنظر رکھتے ہوئے خالد رضی اللہ عنہ کو جو سیف من سیوف اللہ ہیں نہ زیر قصاص لایا جا سکتا ہے نہ معزول کیا جا سکتا ہے‘ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے مالک بن نویرہ کا خوں بہا بیت المال سے ادا کر دیا۔ ایک اسی واقعہ سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اپنے دشمنوں کے قتل کرنے میں کس قدر احتیاط مدنظر رہتی تھی اور وہ کسی معمولی شخص کے لیے ایک قیمتی سپہ سالار کو بھی حق و انصاف کی عزت قائم رکھنے کے واسطے قتل کرنا اور زیر قصاص لانا ضروری سمجھتے تھے۔ مسیلمہ کذاب فتح مکہ کے بعد جو وفود قبائل کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو ہو کر مسلمان ہوئے تھے ان میں مسیلمہ بن حبیب بھی بنو حنیفہ کے وفد میں