تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
۱؎ صحیحبخاریکتابالصلوٰۃحدیث۳۶۴۔ آخرالزماں ہیں‘ بحیرا ابوطالب کے پاس آیا اور کہا کہ یہ تمہارا بھتیجا نبی مبعوث ہونے والا ہے‘ اس کے اندر وہ علامات موجود ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم آخرالزماں کے متعلق توریت و انجیل میں لکھی ہیں‘ لہذا مناسب یہ ہے کہ تم اس کو آگے نہ لے جائو اور یہودیوں کے ملک میں داخل نہ ہو‘ مبادا اس کو کوئی گزند پہنچے۔ ابوطالب نے بحیرا راہب کی یہ باتیں سن کر اپنا مال جلدی جلدی وہیں فروخت کر دیا‘ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو لے کر مکہ معظمہ کی طرف واپس چلے آئے‘ ابوطالب کو باوجود اس کے کہ ملک شام کے شہروں میں داخل نہیں ہوئے اس سفر میں بہت منافع ہوا‘ ایک روایت میں یہ بھی مذکور ہے کہ ابوطالب نے بحیرا راہب کی باتیں سن کر آپ کو وہیں سے مکہ کی طرف واپس بھجوا دیا اور خود قافلہ کے ہمراہ آگے چلے گئے۔۱؎ حرب فجار (یعنی پہلی شرکت جنگ) مقام عکاظ میں ہر سال بڑا بھاری میلہ لگتا تھا‘ اس میلہ میں مشاعرے منعقد ہوتے تھے۔ گھڑ دوڑ ہوتی تھی ‘ پہلوانوں کی کشتیاں اور فنون سپاہ گری کے دنگل بھی ہوتے تھے‘ عرب کے تمام قبائل جنگ جوئی میں حد سے بڑھے ہوئے تھے اور بات بات پر تلواریں کھینچ جاتی تھیں۔ عکاظ کے میلہ میں کسی معمولی سی بات پر قبیلہ ہوازن اور قریش کے درمیان چھیڑ چھاڑ شروع ہو گئی‘ اولاً تو دونوں قبیلوں کے سمجھ دار لوگوں نے بات کو بڑھنے نہ دیا اور معاملہ رفع دفع ہو گیا‘ لیکن شر پسند لوگ بھی ہر قوم میں بکثرت ہوا کرتے ہیں نتیجہ یہ ہوا کہ معاملہ درست ہونے کے بعد پھر بگڑا اور جدال و قتال کا بازار گرم ہوا‘ یہ لڑائی ماہ ذوالقعدہ میں ہوئی اسی لیے اس کا نام حرب فجار مشہور ہوا‘ کیونکہ اہل عرب کے عقیدے کے موافق ماہ ذوالقعدہ میں لڑنا سخت گناہ کا کام تھا‘ اس مہینے میں جاری شدہ لڑائیاں بھی ملتوی ہو جاتی تھیں۔ یہ لڑائی چار بڑی بڑی لڑائیوں کا ایک سلسلہ تھی اور ہر پہلی لڑائی دوسری لڑائی سے زیادہ سخت و شدید ہوتی تھی‘ کیونکہ قبیلہ ہوازن کے ساتھ قیس عیلان کے تمام دوسرے قبائل اور قریش کے ساتھ کنانہ کے تمام قبائل بھی شامل تھے اور یہ لڑائی ترقی کر کے قبائل قیس اور قبائل کنانہ کی لڑائی بن گئی‘ اس آخری چوتھی لڑائی میں بعض سرداروں نے خود اپنے پائوں میں اس لیے بیڑیاں ڈلوائی تھیں کہ میدان ۱؎ مختصر السیرۃ مؤلفہ شیخ عبداللہ‘ صفحہ ۱۶ بہ حوالہ الرحیق المختوم/ سیرت ابن ہشام‘ صفحہ ۹۰/ سننترمذیابوابالمناقبماجاءفیبدءنبوۃالنبی صلی اللہ علیہ و سلم کے تحت جو حدیث مرقوم ہے‘ اس کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ابوطالب نے بلال رضی اللہ عنہ کو بھی بھیجا۔ محقق العصر فی الحدیث شیخ ناصر الدین الالبانیa اس حدیث کی تخریج میں کہتے ہیں کہ یہ درست نہیں۔ کیونکہ بلال رضی اللہ عنہ تو اس وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ جنگ سے کسی طرح بھی بھاگ نہ سکیں۔ اسی آخری چوتھی لڑائی میں پہلی مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی مسلح ہو کر شریک جنگ ہوئے۔ بنو کنانہ میں ہر قبیلہ کا سردار جدا جدا تھا‘ چنانچہ بنو ہاشم کے سردار آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا زبیر بن عبدالمطلب تھے اور ساری فوج یعنی تمام بنو کنانہ کا سپہ سالار اعظم حرب بن امیہ تھا‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی عمر اس وقت پندرہ یا بیس سال کی تھی‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سپرد یہ خدمت تھی