تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سرایت نہ کر جائیں‘اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نجران کے عیسائیوں سے جو عہد نامہ کیا تھا اس میں ایک یہ شرط بھی تھی کہ عیسائی سود خوری کی عادت ترک کردیں گے اور اسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وصیت فرمائی تھی کہ ملک عرب میں یہودی اور عیسائی نہ رہنے پائیں۔ نجران کے نصرانیوں نے ہرقل کے ساتھ ہمدردانہ طرز عمل اختیار کر کے اور سود خوری کو ترک نہ کر کے اپنے آپ کو خود ہی اس سلوک کا مستحق بنا لیا تھا کہ ان کو ملک عرب سے جلا وطن کر دیا جائے۔ آج کل بھی ہم یہودیوں کی جلاوطنیوں کا حال اخبارات میں پڑھا کرتے ہیں جو ان کو یورپ کے متمدن ملکوں سے جبریہ اختیار کرنی اور اپنی جائدادیں حسرت کے ساتھ چھوڑنی پڑتی ہیں‘ ان جلاوطنیوں کے مقابلہ میں نجران کے نصرانیوں کی جلاوطنی تو ایک رحمت تھی نہ کہ مصیبت۔ فتح دمشق جنگ یرموک میںرومی لشکر شکست فاش کھا کربھاگا اور مقام فحل میںجا کر رکا‘ ہرقل نے احکام جاری کئے جن کے موافق فحل میں بھی اور دمشق میں بھی عظیم رومی لشکر مقابلہ کے لیے فراہم ہو گئے‘ دمشق کی خوب مضبوطی کر لی گئی اور فلسطین و حمص کی طرف سے بوقت ضرورت دمشق والوں کو مزید کمک بھیجنے کا مزید اہتمام بھی ہو گیا‘ افواج دمشق کا سپہ سالار اعظم ہرقل نے نسطاس بن نسطورس کو مقرر کیا اور ماہان نامی بطریق گورنر سپہ سالار پہلے سے وہاں موجود تھا‘ اسلامی لشکر ابھی یرموک ہی میں خیمہ زن تھا‘ سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ بن الجراح نے فاروق اعظم کے حکم کے موافق لشکر عراق پر جو سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ہمراہ عراق سے آیا تھا‘ ہاشم بن رضی اللہ عنہ عتبہ کو امیر مقرر کر کے عراق کی جانب روانہ کر دیا‘ ایک دستہ فوج فحل کی جانب روانہ کیا‘ باقی فوج کے چند حصے کر کے ایک حصہ ذوالکلاع رضی اللہ عنہ کی سرداری میں روانہ کیا تاکہ دمشق اور حمص کے درمیان مقیم رہ کر اس فوج کو جو ہرقل حمص سے دمشق والوں کی کمک کو روانہ کرے روکیں‘ ایک حصہ کو فلسطین و دمشق کے درمیان متعین کیا کہ فلسطین کی طرف سے رومی فوجوں کو دمشق کی جانب نہ آنے دیں‘ باقی فوج کو لے کر سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ خود دمشق کی جانب متوجہ ہوئے‘ دمشق پہنچنے سے پہلے مقام غوطہ کو فتح کیا‘ آخرم اہ رجب ۱۳ ھ میں اسلامی لشکر نے دمشق کا محاصرہ کر لیا۔ شہر میں کافی فوج تھی‘ لیکن رومیوں کی جرات نہ ہوئی کہ میدان میں نکل کر مسلمانوں کا مقابلہ کرتے‘ انہوں نے شہر کی مضبوط فصیلوں اور اپنے سامان مدافعت کی پناہ لینی مناسب سمجھی‘ سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ بن جراح باب الجابیہ کی جانب خیمہ زن ہوئے‘ سیدنا خالد بن ولید اور سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ باب توما کی جانب اترے‘ سیدنا شرجیل بن حسنہ فراویس کی جانب اور یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ باب صغیر و باب کیسان کی جانب فروکش ہوئے‘ اس طرح دمشق کے چاروں طرف اسلامی لشکر نے محاصرہ ڈال دیا‘ محصورین شہر کی فصیلوں پر چڑھ کر کبھی پتھروں کی بارش منجنیقوں کے ذریعہ کرتے‘ کبھی تیروں کا مینہ برساتے‘ مسلمان بھی ان کے جواب دینے میں کوتاہی نہ کرتے‘ اس طرح یہ محاصرہ ماہ رجب ۱۳ ھ سے ۱۶ محرم ۱۴ ھ تک چھ مہینے جاری رہا ہرقل نے حمص سے دمشق والوں کی کمک کے لیے جو فوجیں روانہ