تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
۱؎ یہ درست نہیں۔ صحیح یہ ہے کہ راستہ میں عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ملاقات نعیم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے ہوئی تھی۔ ملاحظہ ہو سیرت ابن ہشام‘ صفحہ ۱۶۸۔ قداسلمناوتابعنامحمداًافعلمابدالک ’’ہاں عمر رضی اللہ عنہ ہم مسلمان ہو چکے اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمانبردار بن چکے اب جو کچھ تجھ سے ہو سکتا ہے کر لے۔‘‘ بہن کا یہ دلیرانہ جواب سنا اور نگاہ اٹھا کر دیکھا تو ان کو خون میں تربتر پایا اس نظارہ کا ان کے قلب پر کسی قدر اثر ہوا اور طیش و غضب کے طوفان میں قدرے دھیما پن ظاہر ہونے لگا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بہن سے کہا کہ اچھا تم مجھے وہ کلام دکھائو یا سنائو جو تم ابھی پڑھ رہے تھے اور جس کے پڑھنے کی آواز میں نے گھر میں داخل ہوتے ہی سنی تھی‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا یہ کلام چونکہ کسی قدر سنجیدہ لہجے میں تھا اس لیے ان کی بہن کو اور بھی جرات ہوئی اور انہوں نے کہا کہ تم پہلے غسل کرو تو ہم تم کو اپنا صحیفہ پڑھنے کے لیے دے سکتے ہیں‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسی وقت غسل کیا غسل سے فارغ ہو کر قرآن مجید کی آیات جن اوراق پر لکھی ہوئی تھیں لے کر پڑھنے لگے‘ ابھی چند ہی آیات پڑھی تھیں کہ بے اختیار بول اٹھے۔ ’’کیا شیریں کلام ہے اس کا اثر میرے قلب پر ہوتا جاتا ہے۔‘‘ یہ سنتے ہی سیدنا خباب رضی اللہ عنہ جو اندر چھپے ہوئے تھے فوراً باہر نکل آئے اور کہا ’’اے عمر رضی اللہ عنہ ! مبارک ہو‘ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی دعا تمہارے حق میں قبول ہو گئی‘ میں نے کل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ دعا مانگتے ہوئے سنا ہے کہ الہی عمر رضی اللہ عنہ بن الخطاب یا ابوجہل دونوں میں سے ایک کو ضرور مسلمان کر دے‘۱؎ پھر سیدنا خباب رضی اللہ عنہ نے سورہ طٰہٰ‘‘ کا پہلا رکوع پڑھ کر سنایا‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سورہ طہٰٰ کی آیات سن رہے تھے اور رو رہے تھے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے خباب رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اسی وقت مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس لے چلو‘ چنانچہ وہ اسی وقت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو دار ارقم کی طرف لے کر چلے‘ اس وقت بھی ننگی تلوار سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھی‘ مگر اب یہ تلوار سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں اس ارادہ سے نہ تھی جو بہن کے گھر تک ان کے دل میں تھا۔ دار ارقم کے دروازے پر پہونچ کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے دستک دی‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ جو اندر تھے انہوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں شمشیر برہنہ دیکھ کر دروازہ کھولنے میں تامل کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ ننگی تلوار لیے دروازہ پر کھڑا ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ دروازہ کھول دو‘ ۱؎ جامعترمذی۔ابوابالمناقبمناقبابیحفصعمربنالخطاب رضی اللہ عنہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی روایت موجود ہے۔ صححہالالبانی۔نیز یہ روایت مسند احمد اور مستدرک حاکم میں بھی موجود ہے۔ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے انہوں نے کہا آنے دو اگر ارادہ نیک ہے تو خیر ورنہ اسی کی تلوار سے اس کا سر اڑا دیا جائے گا‘ چنانچہ دروازہ کھولا گیا‘ سیدنا