تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کہ آپ اب بھی اپنی پنچایت کی کارروائی میں حصہ نہ لیں اور ملک شام پر چڑہائی کریں‘ لیکن سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس بات کے ماننے سے صاف انکار فرما دیا تھا اور کہا تھا کہ ہم بدعہدی نہیں کر سکتے اور اپنے تحریری اقرار نامہ سے نہیں پھر سکتے‘ اب حرقوص اور تمام خوارج نے جب دیکھا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ پنچایت اور پنچوں کے فیصلے کو بے حقیقت اور ناقابل التفات ثابت کر کے لوگوں کو ملک شام پر حملہ آور ہونے کی ترغیب دے رہے ہیں توزرعہ بن البرج اور حرقوص بن زہیر دونوں خارجی سردار سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ آپ نے ہمارے صحیح مشورے کو پہلے حقارت سے رد کر دیا اور اب آپ کو وہی کام کرنا پڑا جس کے لیے ہم کہتے تھے‘ پنچایت کے تسلیم کرنے میں آپ نے غلطی کی تھی لیکن آپ نے اس غلطی کو تسلیم نہیں کیا‘ اور اب آپ پنچایت کو بے حقیقت بتانے اور ملک شام پر حملہ آور ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں‘ پس ہم اب آپ کا ساتھ اس وقت دیں گے جب آپ اپنی غلطی اور گناہ کا اقرار کر کے اس سے توبہ کریں گے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ پنچایت کے تسلیم کرنے اور حکم مقرر کرنے میں تم ہی لوگوں نے مجھ کو مجبور کیا تھا‘ ورنہ لڑائی کے ذریعہ اسی وقت فیصلہ ہو چکا ہوتا‘ یہ کیسی الٹی بات ہے کہ اب مجھ کو خطا کار ٹھہراتے اور مجھ سے توبہ کراتے ہو‘ انہوں نے کہا کہ اچھا ہم تسلیم کئے لیتے ہیں کہ ہم نے بھی گناہ کیا‘ لہذا ہم بھی توبہ کرتے ہیں آپ بھی اپنے گناہ کا اقرار کر کے توبہ کریں‘ پھر شامیوں سے لڑنے چلیں‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب میں گناہ ہی تسلیم نہیں کرتا تو توبہ کیسے کروں‘ یہ سن کر وہ دونوں اٹھ کھڑے ہوئے اور لا حکم الا للہ‘ لا حکم الا للہ کہتے ہوئے اپنی قیام گاہوں کی طرف چلے گئے۔ اس کے بعد سیدنا علی مسجد کوفہ میں خطبہ دینے کھڑے ہوئے‘ تو مسجد کے ایک گوشہ سے ایک خارجی نے بلند آواز سے کہا کہ لاحکم الا للہ‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ دیکھو لوگ کلمہ حق سے باطل کا اظہار کرتے ہیں۔ (کَلِمَۃُ حَقٌّ اُرِیْدُ بِھَا الْبَاطِلْ) اس کے بعد آپ نے پھر خطبہ شروع کیا تو یہی آواز آئی لا حکم الا للہ‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم لوگ ہمارے ساتھ بہت ہی نا مناسب برتائو کر رہے ہو‘ ہم تم کو مسجدوں میں آنے سے منع نہیں کرتے‘ جب تک تم ہمارے ساتھ رہے ہم نے مال غنیمت میں بھی تم کو برابر حصہ دیا‘ اور ہم تمہارے ساتھ اس وقت تک نہ لڑیں گے‘ جب تک کہ تم ہم سے نہ لڑو‘ اور اب ہم تمہاری بابت اللہ کے حکم کو دیکھیں گے کہ وہ کیا فیصلہ کرتا ہے‘ یہ فرما کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ مسجد سے نکل کر مکان کی طرف تشریف لے گئے۔ اس کے بعد خارجی لوگ بھی عبداللہ بن وہب کے مکان پر بغرض مشورت جمع ہوئے‘ عبداللہ بن وہب حرقوص بن زہیر‘ حمزہ بن سنان زید الطائی‘ شریح بن ابی اوفی عنبسی وغیرہ کی یہی رائے قرار پائی کہ کوفہ سے نکل پہاڑی مقامات کو قرار گاہ بنانا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی حکومت سے آزاد ہو کر اپنی الگ حکومت قائم کرنا چاہیے‘ ہمزہ بن سنان اسدی نے کہا کہ روانگی سے پہلے ہم کو چاہیے‘ کہ کسی ایک شخص کو امیر بنا لیں اور اس کے ہاتھ میں اپنا جھنڈا دیں۔ اس کام کے لیے اگلے دن شریح کے مکان پر پھر مجلس منعقد ہوئی‘ اس مجلس میں عبداللہ بن وہب کو خوارج نے اپنا امیر بنایا‘ اور اس کے ہاتھ پر بیعت کی‘ عبداللہ بن وہب نے کہا