تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سے اس سے بھی زیادہ خرابیاں مسلمانوں کے لیے پیدا ہوتیں‘ کیونکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنی معزولی کو تسلیم کرنے سے یقینا انکار فرماتے‘اسی طرح سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی ملک شام کی حکومت اور اپنے مطالبات سے دست بردار نہ ہوتے‘ اور ایک تیسرا خلیفہ یا امیر جس کو یہ مجمع منتخب کرتا سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ طاقتور نہیں ہو سکتا تھا‘ اس طرح بجائے دو رقیبوں کے تین شخص پیدا ہو جاتے اور مسلمانوںکی تباہی و ہوا خیزی اور بھی ترقی کر جاتی۔ بات دراصل یہ ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مصالحت پر آمادہ نہ تھے اگر وہ مصالحت کے خواہاں ہوتے تو جنگ صفین میں بڑی لڑائی شروع ہونے سے پیشتر جب کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے مصالحت کی کوشش کی گئی تھی‘ وہ صلح کی یہی صورت یعنی طرفین سے ایک ایک حکم مقرر کرنے کی درخواست پیش کر سکتے تھے‘ لیکن انہوں نے یہ خواہش اس وقت پیش کی جب کہ ان کو اپنی شکست کا یقین ہونے لگا تھا لہذا ان کی طرف سے پنچوں کے تقرر کی خواہش کا پیش ہونا اور ہذا کتاب اللہ بیننا و بینکم کا اعلان کرنا مصیبت کو دور کرنے اور شکست سے بچنے کے لیے ایک جنگی تدبیر اور خدعہ حرب کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ اسی طرح سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بھی اس پنچایت کی تجویز کو بطیب خاطر نہیں مانا تھا‘ وہ تو اس کے خلاف تھے‘ مگر لوگوں نے ان کو مجبور کر کے اور دھمکیاں دے کر اشتر کو واپس بلوایا اور لڑائی کو ختم کرایا تھا‘ لہذا یہ یقین کر لینا کہ اگر عمروبن العاص رضی اللہ عنہ مجمع عام میں ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے بیان کی حرف بحرف تائید کرتے اور دونوں حضرات کو معزول کر دیتے تو دونوں اس فیصلے کو تسلیم کرتے یا نہ کرتے‘ آسان نہیں ہے۔ بہرحال دونوں صاحبوں نے مجمع کے سامنے وہ تقریریں جو اوپر ہو چکی ہیں کیں‘ عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کی تقریر سن کر سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور دوسرے حضرات نے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو ملامت کرنا شروع کی کہ تم فریب کھا گئے‘ اور ابوموسیٰ نے عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کو سخت سست کہا کہ تم نے قرار داد باہمی کے خلاف اظہار رائے کیا اور مجھ کو دھوکہ دیا غرض فوراً مجلس کا سکون درہم برہم ہو کر بدنظمی کی کیفیت پیدا ہو گئی‘ شریح بن ہانی نے عمروبن العاص رضی اللہ عنہ پر تلوار کا وار کیا‘ عمرو بن العاص نے بھی اپنے آپ کو بچا کر شریح پر جوابی وار کیا‘ لوگ درمیان میں آ گئے اور لڑائی کو بڑھنے نہ دیا۔ اس مجلس میں بدنظمی اور افراتفری پیدا ہو جانے کا نتیجہ بھی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے بہتر اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لیے مضر ثابت ہوا‘ کیونکہ اب شامی و عراقی دونوں گروہوں کا ایک جگہ رہنا دونوں طرف کے سرداروں کی نگاہ میں مضر تھا‘ لہذا نہ ان آٹھ سو مسلمانوں کی جمعیت اب کوئی تجویز اتفاق رائے سے پاس کر سکتی تھی نہ اکابر صحابہ رضی اللہ عنھم ۔ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ دل برداشتہ ہو کر اذرح سے مکہ کی طرف روانہ ہو گئے اور عمرو بن العاص بھی وہاں سے اپنی جمعیت کو ہمراہ لے کر فوراً دمشق کی جانب روانہ ہو گئے‘ شریح اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے اپنے ہمرائیوں کے ساتھ کوفہ کی جانب کوچ کیا‘ مکہ اور مدینہ سے جو چند حضرات یہاں آئے تھے وہ بھی