تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مصیبت اور فتنہ میں مبتلا ہو رہے ہیں بہتر یہ ہے کہ ان دونوں کو ہم معزول کر دیں اور مسلمانوں کو اختیار دیں کہ وہ کثرت رائے یا اتفاق رائے سے کسی کو اپنا خلیفہ منتخب کر لیں۔ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے اس رائے کو پسند کیا‘ اور تجویز ہوا کہ ابھی باہر چل کر جلسہ عام میں اس کا اعلان کر دیں‘ اگرچہ دونوں صاحب اس رائے پر متفق ہو گئے لیکن یہ رائے بھی خطرے اور اندیشے سے خالی نہ تھی کیونکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنی معزولی کو ہرگز تسلیم نہیں فرما سکتے تھے‘ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی ملک شام کی پوری حمایت اور بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو اپنا معاون رکھتے ہوئے اس فیصلے کو رضا مندی اور خوشی کے ساتھ نہیں سن سکتے تھے‘ بہرحال باقاعدہ طور پر مجمع عام کا اعلان ہوا تمام آدمی جو فیصلے کے لیے گوش برآواز و چشم برراہ تھے فوراً جمع ہو گئے‘ منبر لا کر رکھا گیا اور دونوں پنچ معہ دیگر با اثر حضرات کے وہاں آئے۔ فیصلہ! عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ اعلان کر دیجئے اور فیصلہ جو ہو چکا ہے لوگوں کو سنا دیجئے‘ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے منبر پر چڑھ کر فرما دیا کہ لوگو! ہم دونوں نے بہت غور کیا‘ لیکن سوائے ایک بات کے ہم اور کسی تجویز پر متفق نہ ہو سکے‘ اب میں تم کو اپنا وہی متفقہ فیصلہ سناتا ہوں اور امید ہے کہ اسی تجویز پر عمل کرنے سے مسلمانوں کی نا اتفاقی دور ہو کر ان میں صلح قائم ہو جائے گی‘ وہ فیصلہ جس پر میں اور عمروبن العاص رضی اللہ عنہ دونوں متفق ہیں یہ ہے کہ اس وقت علی رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ دونوں کو معزول کرتے ہیں اور تم لوگوں کو اختیار دیتے ہیں کہ تم اپنے اتفاق رائے سے جس کو چاہو خلیفہ منتخب کر لو۔ مجمع نے اس تقریر کو سنا اور ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ منبر سے اتر آئے‘ اس کے بعد عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ منبر پر چڑھے اور انہوں نے لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ آپ حضرات گواہ رہیں‘ کہ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے اپنے دوست سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو معزول کر دیا‘ میں بھی ان کی اس بات سے متفق ہوں اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو معزول کرتا ہوں لیکن معاویہ رضی اللہ عنہ کو میں معزول نہیں کرتا بلکہ بحال رکھتا ہوں‘ کیوں کہ وہ مظلوم شہید ہونے والے خلیفہ کے ولی اور ان کی قائم مقامی کے مستحق ہیں۔ اگر سیدنا عمروبن العاص رضی اللہ عنہ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی رائے کی تمام و کمال تائید کرتے اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی حمایت میں کچھ نہ فرماتے تو حکمین کے فیصلے کی وہ بے حرمتی جو بعد میں ہوئی ہرگز نہ ہوتی‘ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے جو کچھ فرمایا اس میں بھی گو کم زوری اور غلطی موجود ہو گی‘ لیکن کم از کم بد دیانتی اور خیانت کا شائبہ اس میں نہ تھا‘ اس سے آٹھ سو مسلمانوں کے مجمع کو بھی غالباً کوئی اختلاف نہ ہوتا‘ کیونکہ کسی ایک خلیفہ کے انتخاب کا اختیار حکمین کی طرف سے ان ہی آٹھ سو آدمیوں کو دیا گیا تھا۔ مگر جو کچھ بعد میں ہوا یہ سب کچھ پھر بھی ہونے والا تھا اور ممکن تھا‘ کہ اس فیصلے