تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
زہری رضی اللہ عنہ ‘ ابوجہم بن حذیفہ رضی اللہ عنہ ‘ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ ‘ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ وغیرہم حضرات جب سب اذرح میں پہنچ گئے‘ تو ان خاص الخاص اور نامور حضرات کی ایک محدود مجلس منعقد ہوئی‘ اور اس میں ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بھی تشریف لائے‘ اس صحبت خاص میں عمروبن العاص رضی اللہ عنہ اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی گفتگو شروع ہوئی۔ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے اول اس بات کا اقرار کرایا کہ عثمان غنی رضی اللہ عنہ مظلوم قتل کئے گئے‘ پھر اس بات کا بھی اقرار کرایا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ ہم جد ہونے کی حیثیت سے عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کا دعویٰ کرنے میں حق پر ہیں۔ یہ دونوں باتیں ایسی تھیں کہ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے کبھی ان کے خلاف اپنی رائے ظاہر نہیں کی تھی اور ان کے تسلیم کرنے میں ان کو کوئی تامل نہ ہوا۔ پھر عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے مسئلہ خلافت کو چھیڑا اور کہا کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ قریش کے ایک شریف اور نامور خاندان سے تعلق رکھتے ہیں‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زوجہ مطہرہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہ کے بھائی ہیں‘ صحابی بھی ہیں‘ اور کاتب وحی بھی۔ ان باتوں کو سن کر ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے مخالفت کی اور کہا کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی ان خصوصیات سے مجھ کو انکار نہیں‘ لیکن امت مرحوم کی امارت ان کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ یا دوسرے محترم حضرات کی موجودگی میں کیسے سپرد کی جا سکتی ہے‘ یہ باتیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ میں فائق تر موجود ہیں‘ یعنی وہ رشتہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بہت ہی قریب ہیں‘ شریف خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور سرداران قریش میں شمار ہوتے ہیں‘ علم‘ شجاعت‘ تقویٰ وغیرہ صفات میں بھی وہ خاص طور پر ممتاز ہیں۔ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے کہا کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ میں انتظامی قابلیت اور سیاست دانی زیادہ ہے۔ ابو موسیٰ نے کہا تقویٰ اور ایمانداری کے مقابلہ میں یہ چیز قابل لحاظ نہیں‘ غرض اسی قسم کی باتیں ہوتی رہیں‘ آخر ابو موسیٰ اشعری نے کہا کہ میری تو رائے یہ ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ اور علی رضی اللہ عنہ دونوں کو معزول کر کے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنا دیا جائے‘ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اس وقت آنکھیں بند کئے ہوئے اپنے کسی خیال میں محو بیٹھے تھے‘ انہوں نے اپنا نام سن کر اور آنکھیں کھول کر بلند آواز سے کہا کہ۔۔۔ مجھ کو منظور نہیں ہے۔ عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم میرے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ کو کیوں منتخب نہیں فرماتے۔ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہاں تیرا بیٹا عبداللہ بھی بہت نیک ہے‘ لیکن تو نے اس کو اس لڑائی میں شریک کر کے فتنہ میں ڈال دیا ہے۔ جب دیر تک گفتگو کا سلسلہ جاری رہا اور کوئی ایسی بات طے نہ ہوئی جس پر دونوں متفق ہو جاتے تو عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے اپنی یہ رائے پیش کی کہ معاویہ رضی اللہ عنہ اور علی رضی اللہ عنہ دونوں کی مخالفت اور جنگ سے تمام مسلمان