تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تعالیٰ تعالی کی کتاب اور اس کے حکم کو قاضی قرار دے کر اس بات کا اقرر کرتے ہیں کہ حکم اللہ تعالیٰ اور کتاب اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے کو دخل نہ دیں گے‘ ہم الحمد سے لے کر والناس تک تمام قرآن شریف کو مانتے اور وعدہ کرتے ہیں کہ قرآن شریف جن کاموں کے کرنے کا حکم دے گا اس کی تعمیل کریں گے‘ اور جن سے منع کرے گا ان سے رک جائیں گے‘ دونوں پنچ جو مقرر ہوئے ہیں‘ ابو موسیٰ عبداللہ بن قیس اشعری رضی اللہ عنہ اور عمرو ابن العاص رضی اللہ عنہ ہیں‘ یہ دونوں جو کچھ کتاب اللہ میں پائیں گے اسی کے موافق فیصلہ کریں گے اور اگر کتاب اللہ میں نہ پائیں گے تو سنت عادلہ جامعہ غیر مختلف فیہا پر عمل کریں گے۔ اس کے بعد حکمین یعنی ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور عمروبن العاص رضی اللہ عنہ سے اقرار لیا گیا کہ ہم خدائے تعالی کو حاضر و ناظر سمجھ کر کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے موافق صحیح فیصلہ کریں گے اور امت مرحومہ کو جنگ و فساد اور تفرقہ میں مبتلا نہ کریں گے‘ اس کے بعد رمضان تک یعنی چھ مہینے کی مہلت حکمین کو دی گئی کہ اس مدت کے اندر اندر ان کو اختیار ہے کہ جب چاہیں فریقین کو اطلاع دے کر مقام اذرح متصل دومۃ الجندل‘ جو دمشق و کوفہ کے درمیان دونوں شہروں کے برابر فاصلہ پر ہے‘ آ کر اپنا فیصلہ سنا دیں اور اس عرصہ میں زیر بحث مسئلہ کے متعلق اپنی تحقیقات کو مکمل اور اپنے خیالات کو مجتمع کر لیں‘ یہ بھی تجویز ہوا کہ جب کوفہ سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور دمشق سے عمروبن العاص رضی اللہ عنہ مقام اذرح کی طرف فیصلہ سنانے کے لیے روانہ ہوں تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے ہمراہ چار سو آدمی اور سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ عمروبن العاص کے ہمراہ چار سو آدمی روانہ کریں‘ یہ آٹھ سو آدمی تمام مسلمانوں کے قائم مقام سمجھے جائیں گے جن کو حکمین اپنا فیصلہ سنا دیں گے۔ ان مذکورہ باتوں کے طے ہو جانے کے بعد قرار داد کے موافق سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے تمام لشکر سے اور سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے تمام لشکر سے اس بات کا اقرار لیا کہ فیصلہ سنانے کے بعد حکمین کے جان و مال اور اہل و عیال سب محفوظ اور امن میں ہوں گے‘ دونوں لشکروں نے بخوشی اس کا اقرار کیا‘ اس کے بعد اقرار نامہ کی دو نقلیں تیار کی گئیں‘ ان پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے اشعث بن قیس‘ سعد بن قیس ہمدانی‘ ورقاء بن سیمی‘ عبداللہ ابن فحل عجلی‘ حجر بن عدی کندی‘ عبداللہ بن الطفیل عامری‘ عقبہ بن زیاد حضرمی‘ یزید بن تجحفہ تمیمی اور مالک بن کعب ہمدانی نے بطور گواہ اور ضامن کے دستخط کئے۔ اور سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے ابوالاعور سلمی‘ حبیب بن مسلمہ‘ دائل ابن علقمہ عدوی‘ حمزہ بن مالک ہمدانی‘ عبدالرحمن بن خالد مخزومی‘ سبیع بن یزید انصاری‘ عتبہ بن ابوسفیان‘ یزید بن الحر عبسی کے دستخط ہوئے۔ جب دونوں نقلیں مکمل ہو گئیں‘ تو ایک ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو دی گئی اور دوسری عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کے سپرد کی گئی۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے جن لوگوں نے بطور ضامن دستخط کئے ان میں سے مالک اشتر سے دستخط کے لیے کہا گیا‘ لیکن اس نے دستخط کرنے سے صاف انکار کیا‘ اشعث بن قیس نے اصرار کیا تو دونوں میں سخت کلامی تک نوبت پہنچی مگر کوئی فساد نہ ہونے پایا۔