تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
زبان سے جواب دینے میں بھی تامل نہ کرتے تھے۔ لیکن ان میں دو گروہ زیادہ اہمیت رکھتے اور اپنی تعداد اور جوش و خروش کے اعتبار سے خصوصی طور پر قابل توجہ تھے‘ ایک وہ جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ملزم ٹھہراتے اور ان کی اطاعت و فرماں برداری کو مطلق ضروری نہیں سمجھتے تھے‘ اور دوسرے وہ جو پہلے گروہ کی ضد میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو معصوم عن الخطاء کہتے اور ان کی اطاعت و فرماں برداری کو اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی فرماں برداری پر بھی ترجیح دینے کے لیے تیار تھے‘ پہلا گروہ خوارج اور دوسرا شیعان علی رضی اللہ عنہ کے نام سے مشہور ہوا‘ لطف کی بات یہ ہے کہ خوارج کے گروہ میں وہی لوگ امام اور لیڈر تھے جنہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو مجبور کیا تھا اور کہا تھا کہ جلد اشتر کو واپس بلائیے اور لڑائی کو ختم کیجئے ورنہ ہم آپ کے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا تھا‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ان لوگوں کو بار بار یاد دلاتے تھے کہ تم ہی لوگوں نے میرے منشاء کے خلاف لڑائی کو بند کرایا اور صلح کو پسند کیا‘ اب تم ہی صلح کو نا پسند کرتے اور مجھ کو ملزم ٹھہراتے ہو‘ مگر ان کی اس بات کو کوئی نہیں سنتا تھا‘ آخر نوبت بایں جا رسید کہ کوفہ کے قریب پہنچ کر بارہ ہزار آدمی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر سے جدا ہو کر مقام حروراء کی طرف چل دئیے۔ یہ خوراج کا گروہ تھا اس نے حروراء میں جا کر قیام کیا اور وہاں عبداللہ بن الکواء کو اپنی نمازوں کا امام‘ شبث بن ربعی کو سپہ سالار مقرر کیا‘ یہ وہی شبث بن ربعی ہیں جن کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے میدان صفین کے زمانہ قیام میں دو مرتبہ سفارتی وفد میں شامل کر کے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا تھا اور دونوں مرتبہ ان ہی کی سخت کلامی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے ہوئی اور دونوں سفارتیں صلح کی کوشش میں ناکام رہیں‘ اس گروہ نے حروراء میں اپنا نظام درست کر کے اعلان کر دیا کہ۔ بیعت صرف اللہ تعالیٰ تعالی کی ہے‘ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے موافق نیک کاموں کے لیے حکم دینا‘ برے کاموں سے منع کرنا ہمارا فرض ہے‘ کوئی خلیفہ اور کوئی امیر نہیں ہے‘ فتح حاصل ہونے کے بعد سارے کام تمام مسلمانوں کے مشورے اور کثرت رائے سے انجام دئیے جایا کریں گے‘ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور علی رضی اللہ عنہ دونوں یکساں اور خطاکار ہیں۔ خوارج کی ان حرکات کا حال معلوم کر کے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نہایت ضبط و تحمل اور درگذر سے کام لیا‘ کوفہ میں داخل ہو کر اول ان لوگوں کے اہل و عیال کو جو صفین میں مارے گئے تھے تسکین و تشفی دی‘ اور کہا کہ جو لوگ میدان صفین میں مارے گئے ہیں وہ سب شہید ہوئے ہیں‘ پھر آپ نے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو خوارج کے پاس بھیجا کہ ان کو سمجھائیں اور راہ راست پر لائیں‘ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے ان کے لشکر گاہ میں پہنچ کر ان کو سمجھانا چاہا مگر وہ بحث و مباحثہ کے لیے بھی تیار تھے انہوں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی باتوں کا رد کرنا شروع کیا۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے ان کا مباحثہ جاری تھا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی خود ان کے لشکر گاہ کی طرف تشریف لے گئے‘ اول آپ یزید بن قیس کے خیمے میں گئے کیونکہ یزید بن قیس کا اس گروہ پر زیادہ اثر تھا‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے یزید