تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
حکم دو کہ وہ فوراً تیروں پر قرآن مجید کو بلند کریں اور بلند آواز سے کہیں ہذا کتاب اللہ بیننا و بینکم (ہمارے تمہارے درمیان اللہ تعالیٰ تعالی کی کتاب قرآن مجید موجود ہے) چنانچہ فوراً یہ حکم دیا گیا اور اہل شام نے نیزوں پر قرآن شریف کو بلند کر کے کہنا شروع کیا کہ ہم کو قرآن شریف کا فیصلہ منظور ہے‘ بعض حصوں سے آواز آتی تھی کہ مسلمانوں ہماری لڑائی دین کے لیے ہے آئو قرآن کریم کے فیصلے کو منظور کر لیں اور لڑائی کو ختم کر دیں۔ بعض سمتوں سے آواز آتی تھی کہ مسلمانوں قرآن شریف کو حکم بنا لو اگر لڑائی میں شامی لوگ تباہ ہو گئے‘ تو رومیوں کے حملے کو کون روکے گا اور اہل عراق برباد ہو گئے‘ تو مشرقی حملہ آوروں کا کون مقابلہ کرے گا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکروالوں نے جب قرآن مجید کو نیزوں پر بلند دیکھا تو لڑائی سے ہاتھ کھینچ لیا‘ سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے شامیوں کی یہ حرکت دیکھ کر کہا کہ اب تک تو لڑائی تھی لیکن اب فریب شروع ہو گیا‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو سمجھایا کہ تم اس وقت کوتاہی نہ کرو‘ بہت جلد تم کو کامیابی حاصل ہو جائے گی‘ لوگ مسلسل لڑتے لڑتے تھک گئے تھے اور اس لڑائی کو جو مسلمانوں کے درمیان ہو رہی تھی مضر اسلام بھی سمجھتے تھے‘ اس لیے انہوں نے لڑائی کے بند کرنے اور صلح پر رضا مند ہو جانے کی اس درخواست کو بہت ہی غنیمت سمجھا اور فوراً تلواریں میان میں رکھ لیں‘ اب تک دونوں لشکروں کی طاقت مقابلہ میں بالکل مساوی ثابت ہوتی رہی تھی اور فتح کا قریب ہونا جس طرح سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور بعض تجربہ کار و باخبر سرداروں کو تو نظر آتا تھا‘ عام سپاہیوں اور لڑنے والوں کو اس کے سمجھنے کا موقع نہ ملا تھا‘ اس لیے بھی فوج کی غالب تعداد نے شامیوں کی اس خواہش کو بہت ہی غنیمت اور مناسب سمجھا‘ یہ رنگ دیکھ کر سبائی گروہ کے افراد کی بھی آنکھیں کھلیں‘ وہ فوراً میدان عمل میں نکل آئے‘ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے گرد جمع ہو کر ان کو مجبور کرنا شروع کیا کہ آپ اشتر کو واپس بلا لیں۔ اشتر اپنی کامیابی کو یقینی سمجھتا اور فتح و فیروزی کو پیش افتادہ دیکھتا تھا‘ اشتر کے واپس بلانے اور لڑائی بالکل بند کر دینے کا مطالبہ کرنے والوں کے ساتھ عام لشکری آ آ کر شریک ہونے لگے‘ ادھر لوگوں نے لڑائی بند کر دی اور اشتر کے حملہ کو روکنے کے لیے شامی فوج فارغ ہو گئی‘ ادھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو لوگوں نے چاروں طرف سے گھیر کر یہاں تک گستاخانہ کلام کیا کہ اگر آپ اشتر کو واپسی کا حکم نہ دیں گے تو ہم آپ کے ساتھ بھی وہی سلوک کریں گے جو ہم نے عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا ہے‘ یہ خطرناک صورت دیکھ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اشتر کے پاس فوراً آدمی دوڑایا کہ یہاں فتنہ کا دروازہ کھل گیا ہے‘ جس قدر جلد ممکن ہو‘ اپنے آپ کو میرے پاس واپس پہنچائو‘ اشتر بادل ناخواستہ واپس آیا اور لڑائی کا ہنگامہ یک لخت بند ہو کر تمام میدان پرسکون و خاموشی طاری ہو گئی۔ اشتر کے واپس آنے پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے صورت واقعہ بیان کی‘ اشتر نے افسوس کیا اور کہا کہ اے اہل عراق جس وقت تم اہل شام پر غالب ہونے والے تھے اسی وقت ان کے دام فریب میں مبتلا ہو گئے‘ لوگوں میں یہاں تک لڑائی کے خلاف جوش پیدا ہو چکا تھا کہ انہوں نے اشتر پر حملہ کرنا چاہا‘ مگر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ڈانٹنے اور روکنے سے وہ رک گئے‘ اس کے بعد اشعث بن قیس نے آگے بڑھ کر عرض