تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حملہ ہوا اور اہل عراق کو سخت نقصان برداشت کرنا پڑا‘ لیکن وہ اپنی جگہ پر قائم رہے۔ سیدنا علی کرم رضی اللہ عنہ میسرہ کی طرف سے میمنہ والوں کی ہمت بند ہانے اور ان کو لڑائی کی ترغیب دینے کے لیے تشریف لائے‘ یہاں خوب جم کر نہایت زور و شور سے تلوار چل رہی تھی‘ ادہر ذوالکلاح حمیری اور عبیداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے میسرہ پر اس شدت سے حملہ کیا کہ قبیلہ ربیعہ کا حکم بھی اپنی جگہ پر قائم نہ رہ سکا اور کشتوں کے پشتے لگ گئے‘ میسرہ کی اس تباہ حالت کو دیکھ کر عبدالقیس نے آگے بڑھ کر ربیعہ کو سنبھالا اور اہل شام کی پیش قدمی کو روکا‘ اس بروقت امداد سے میسرہ کی حالت پر سنبھل گئی‘ اور اتفاق کی بات کہ ذوالکلاح حمیری اور عبیداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ دونوں لڑائی میں کام آئے۔ غرض صبح سے شام تک میمنہ و میسرہ سے بڑے زور و شور سے تلوار چلتی رہی مگر دونوں فوجوں کے قلب ابھی تک ہنگامہ کار زار کے شور وغل سے خالی اور خاموش تھے‘ آخر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے بلند آواز سے لوگوں کو مخاطب کر کے کہا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ۱؎ میمنہ‘ میسرہ اور مقدمۃ الجیش جنگی فوج کی اصطلاحات ہیں۔ فوج کے اگلے حصے کو مقدمۃ الجیش‘ دائیں حصے کو میمنہ اور بائیں حصے کو میسرہ کہتے ہیں۔ حاصل کرنا چاہتا ہو اور اس کو مال و اولاد کی طرف واپس جانے کی خواہش نہ ہو وہ میرے ساتھ آ جائے وہ یہ کہتے ہوئے چلے اور ان کے ساتھ بہت سے لوگ مارنے اور مرنے پر مستعد ہو کر شامل ہو گئے‘ آخر وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے علمبردار بن عتبہ کے پاس پہنچے‘ وہ بھی علم لیے ہوئے ان کے ساتھ ہو لیے‘ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ اپنے فدائی گروہ کو لیے ہوئے لشکر شام کے قلب پر حملہ آور ہوئے‘ اب دن ختم ہو کر رات شروع ہو گئی تھی‘ عمار رضی اللہ عنہ بن یاسر رضی اللہ عنہ کا یہ حملہ نہایت سخت تھا جس کو عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے بڑی مشکل سے روکا‘ خوب تلوار چلی اور آخرکار سیدنا عمار رضی اللہ عنہ اسی لڑائی میں کام آئے۔ عماربن یاسر رضی اللہ عنہ کے مارے جانے کی خبر جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوئی تو سخت صدمہ ہوا اور اس کے بعد لشکر اہل شام کا بھی ہر حصہ مصروف جنگ ہو گیا‘ تلواروں کی خچاخچ اور نیزوں کی طعن و ضرب‘ نیز رجز خوانوں کی آوازوں اور لڑانے والوں کی تکبیروں سے تمام عرصہ شب معمور رہا‘ یہ رات جمعہ کی رات تھی‘ لیلۃ الہریر کے نام سے مشہور ہے‘ اسی شب میں سیدنا اویس قرنی رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوئے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کبھی میمنہ میں ہوتے تھے‘ کبھی میسرہ میں نظر آتے اور کبھی لشکر میں شمشیر زنی کرتے ہوئے دیکھے جاتے‘ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ میسرہ کو سنبھالے ہوئے تھے اور اشتر نے میمنہ کو سنبھال رکھا تھا‘ اسی طرح معاویہ رضی اللہ عنہ ‘ عمروبن العاص رضی اللہ عنہ اور دوسرے سرداروں نے لشکر شام کو مصروف جنگ رکھا‘ ساری رات اسی جنگ و پیکار میں بسر ہو گئی‘ دن کے بعد رات بھی ختم ہو گئی‘ مگر لڑائی کے ختم ہونے کی کوئی صورت ظاہر نہ ہوئی‘ جمعہ کا دن شروع ہوا اور آفتاب افق مشرق سے طلوع ہوا‘ تو اس نے غروب ہوتے وقت دونوں لشکروں کو جس طرح مصروف قتال چھوڑا تھا اسی طرح مصروف قتال دیکھا۔ لیلۃ الہریر کی جنگ و پیکار میں ایک قابل تذکرہ واقعہ یہ بھی ہوا کہ سیدنا علی رضی اللہ