تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
عنہ ایک مرتبہ بارہ ہزار سواروں کا زبردست دستہ لیے ہوئے اس سرعت و قوت سے حملہ آور ہوئے کہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے خیمے تک پہنچے گئے اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو آواز دے کر کہا‘ کہ مسلمانوں کو قتل کرانے سے کوئی فائدہ نہیں ہے‘ آئو ہم دونوں میدان میں ایک دوسرے کا مقابلہ کریں‘ ہم میں جو کامیاب ہو وہی خلیفہ ہو جائے گا‘ اس آواز کو سن کر عمروبن العاص نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ بات تو معقول ہے آپ کو مقابلے کے لیے نکلنا چاہیے۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس فیصلے کو تم اپنے لیے کیوں پسند نہیں کرتے‘ کیا تم کو معلوم نہیں کہ علی رضی اللہ عنہ کے مقابلہ پر جو شخص میدان میں نکلتا ہے وہ جان بر نہیں ہوتا‘ پھر ہنس کر کہا کہ شاید تم مجھ کو اس لیے مقابلہ پر بھیجتے ہو کہ میں مارا جائوں اور میرے بعد تم ملک شام کے مالک بن بیٹھو‘ غرض امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو کوئی جواب نہیں دیا گیا اور وہ اپنے لشکر کی طرف تشریف لے آئے۔ جمعہ کے دن بھی دوپہر تک بدستور لڑائی جاری رہی‘ اب تلوار چلتے ہوئے مسلسل تیس گھنٹے سے زیادہ مدت گذر چکی تھی‘ اس تیس گھنٹہ میں ستر ہزار کے قریب آدمی طرفین سے مارے جا چکے تھے‘ اسلام کی اتنی بڑی طاقت کا آپس میں لڑ کر ضائع ہونا سب سے بڑی مصیبت تھی جو اس تیس گھنٹہ کی منحوس مدت میں مسلمانوں پروارد ہوئی‘ ستر ہزار ایسے بے نظیر بہادروں کو قتل کرا کر تو مسلمان نہ صرف اس زمانہ کی ساری دنیا بلکہ ایسی ایسی کئی دنیائوں کو فتح کر سکتے تھے۔ جب دوپہر ڈھل گئی تو مالک اشتر نے اپنے متعلقہ حصہ فوج کا چارج عیان بن ہوذہ کو سپرد کیا اور خود سواروں کی جمعیت کو ایک طرف لے جا کر اہل شام پر حملہ کرنے اور جان دینے کی ترغیب دی‘ سواروں نے اس بات کا اقرار کیا کہ ہم فتح حاصل کئے یا جان دئیے بغیر واپس نہ آئیں گے۔ سواروں کا ایک دستہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی رکاب میں رہا اور بڑے حصے کو اشتر نے لے کر ایک مناسب سمت سے شامی لشکر پر حملہ کیا‘ لڑائی کا فیصلہ کرنے کے لیے یہ وقت بھی بہت ہی مناسب آ گیا تھا‘ کیونکہ اب تک کی لڑائی میں اگرچہ پہلے دن یعنی جمعرات کے روز شامی لشکر چیرہ دست اور غالب نظر آتا تھا‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کی حالت جمعرات کے دن شام تک ایسی خطرناک تھی جس سے گمان ہو سکتا تھا کہ شکست ان ہی کے حصے میں آئے گی‘ اور لشکر شام فتح مند ہو جائے گا‘ لیکن رات کے معرکہ میں شامیوں کے زیادہ آدمی مارے گئے‘ اور اب جمعہ کے دن دوپہر ڈھلے تک اگرچہ لڑائی کانٹے کا تول برابر تلی ہوئی نظر آتی تھی‘ مگر شامیوں کے نصف سے زیادہ آدمی مارے جا چکے تھے اور ان کی تعداد اب بجائے اسی ہزار کے صرف ۳۵ ہزار کے باقی رہ گئی تھی‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں اب تک بیس پچیس ہزار آدمی مارے گئے تھے‘ اور ان کی تعداد ساٹھ ہزار باقی تھی‘ یعنی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کی تعداد اب سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر کی تعداد سے دگنی تھی۔ ایسی حالت میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لیے موقع تھا کہ وہ دشمن کو مصروف جنگ رکھتے ہوئے اپنی فوج کے ایک معقول حصے کو جدا کر کے مصروف و مشغول دشمن کے پہلو یا پشت پر ایک زبردست ضرب لگائیں کہ اس کا کام تمام ہو جائے اور