تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
گرد تھے حملہ کا حکم دیا‘ ان لوگوں کا حملہ ایسا زبردست تھا کہ عبداللہ بن بدیل صرف ڈھائی سو آدمیوں کے ساتھ رہ گئے‘ باقی تمام عراقی پسپا اور فرار ہو کر اس مقام تک پہنچ گئے جہاں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کھڑے تھے‘ اپنے میمنہ کی ایسی ابتر حالت دیکھ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سہل بن حنیف کو اہل مدینہ کا افسر بنا کر عبداللہ بن بدیل کی حفاظت و اعانت کے لیے روانہ کیا‘ لیکن شامیوں سہیل بن حنیف کو عبداللہ بن بدیل تک نہ پہنچنے دیا‘ اور تھوڑی دیر کے بعد عبداللہ بن بدیل شامی لشکر کے ہاتھ سے معہ اپنے ہمرائیوں کے کام آئے۔ ادھر میمنہ کی یہ شکست سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اپنی طرف متوجہ کئے ہوتے تھے کہ ادھر ان کے میسرہ کو بھی شامیوں کے مقابلہ میں شکست ہوئی‘ میسرہ میں صرف ایک قبیلہ ربیعہ پامردی و استقلال کے ساتھ اپنی جگہ پر قائم رہا‘ باقی دستے فرار ہونے پر مجبور ہو گئے‘ اپنے میسرہ کو فرار ہوتے ہوئے دیکھ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے تینوں بیٹوں حسن رضی اللہ عنہ ‘ حسین رضی اللہ عنہ ‘ محمد رضی اللہ عنہ کو اس طرف روانہ کیا کہ قبیلہ ربیعہ کے بھی کہیں پائوں نہ اکھڑ جائیں اور اشتر کو حکم دیا کہ میمنہ کے فراریوں سے جا کر یہ کہو کہ تم اس موت سے کہاں بھاگے جاتے ہو جس کو تم حیات کے ذریعہ مجبور نہ کر سکو گے‘ اشتر نے گھوڑا دوڑا کر میمنہ کے بھاگے ہوئے لوگوں کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا یہ پیغام سنایا اور بلند آواز سے غیرت دلانے والے فقرے کہہ کر ان کو روکا اور اپنے ہمراہ لے کر لشکر شام کے مقابلہ پر مستعد کیا‘ ادھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ میسرہ کی حالت سنبھالنے کے لیے خود متوجہ ہوئے‘ قبیلہ ربیعہ نے جب دیکھا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ خود ہم میں شامل ہو کر تلوار چلا رہے ہیں تو ان کی ہمتوں میں اور بھی اضافہ ہوا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بذات خود لڑتا ہوا دیکھ کر ابوسفیان کا غلام احمر ان کی طرف جھپٹا‘ لیکن سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے غلام کیسان نامی نے آگے بڑھ کر اس کا مقابلہ کیا‘ دونوں میں تلوار چلنے لگی‘ بالآخر احمدان کے ہاتھ سے کیسان مقتول ہوا‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے خادم کو مقتول دیکھ کر احمدان پر حملہ کیا اور جوش غضب میں اس کو اٹھا کر اس زور سے زمین پر دے مارا کہ اس کے دونوں ہاتھ بے کار ہو گئے‘ لشکر شام نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو مصروف جنگ دیکھ کر ان پر حملہ کیا مگر اہل ربیعہ نے ان کے حملے کو روک لیا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ تک انہیں نہ پہنچنے دیا۔ اشتر نے بھی ادھر میمنہ کی حالت کو سنبھال لیا اور لڑائی کا عنوان جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لیے بہت خطرناک ہو چکا تھا‘ کسی قدر درست ہوا‘ اور طرفین نے میدان میں جم کر تلواریں چلانی شروع کیں‘ عصر کے وقت تک برابر تلوار چلتی رہی‘ عصر کے قریب مالک اشتر نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے میسرہ کو دبا کر پیچھے ہٹایا‘ لیکن امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی رکابی فوج نے جو مرنے پر بیعت کر چکی تھی اپنے میسرہ کو سہارا دیا‘ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے میمنہ کو دھکیل کر دور تک پیچھے ہٹا دیا۔۱؎ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے عبداللہ بن حصین جو عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے ہمرائیوں میں سے تھے رجز پڑھتے ہوئے آگے نکلے‘ مخالف سمت سے عقبہ بن حدیبہ نمیری نے بڑھ کر مقابلہ کیا‘ عقبہ کے مارے جانے پر شامیوں کی طرف سے سخت