تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بصرہ والے ان کے حامی و مددگار تھے اور سوم سیدنا زبیر اور کوفہ میں ان سے عقیدت رکھنے اور ان کو مستحق خلافت سمجھنے والوں کی تعداد زیادہ تھی‘ چہارم سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور یہ ملک شام کے گورنر تھے‘ اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانہ سے ذمہ دارانہ عہدوں پر فائز اور عرصہ دراز سے شام کی حکومت پر مامور تھے‘ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے رشتہ دار اور وارث ہونے کی وجہ سے ان کے خون کا دعویٰ کرتے اور قصاص چاہتے تھے۔ اب سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ و زبیر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد صرف دو ہی شخص باقی رہ گئے تھے‘ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ صرف ان باغیوں کے بنائے ہوئے خلیفہ ہیں جنہوں نے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تھا‘ اکثر جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہ نے جو مدینہ میں موجود تھے سیدنا علی کی بیعت سے انکار کیا‘ باقی جلیل القدر صحابہ کی ایک بڑی تعداد مدینہ سے باہر تھی‘ حالانکہ اس سے پہلے بیعت خلافت میں ان کی شرکت ضروری سمجھی جاتی رہی ہے‘ اس انتخاب میں ان سے مشورہ نہیں لیا گیا‘ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے لشکر میں پناہ دے رکھی ہے۔ اسی طرح سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ خدمات اسلام میں‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے قرب میں‘ رشتے میں‘ سابق الاسلام ہونے میں ہرگز ہرگز میرا مقابلہ نہیں کر سکتے غرض دونوں ایک دوسرے کے مقابل دعاوی رکھتے تھے‘ سیدنا عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے اب اپنے آپ کو بے تعلق رکھنا مناسب نہ سمجھا‘عبداللہ بن عمرو نے باپ کو مشورہ دیا کہ رسول اللہ‘ صلی اللہ علیہ و سلم ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ‘ عمر فاروق رضی اللہ عنہ ‘ عثمان غنی رضی اللہ عنہ سب آخر وقت تک آپ سے خوش رہے‘ لہذا اب مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ بالکل خاموش اور گوشہ نشین رہیں یہاں تک کہ لوگوں کا کسی ایک شخص پر اتفاق و اجماع ہو جائے‘ دوسرے بیٹے محمد بن عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ عرب کے عمائدین و با اثر اور صاحب الرائے لوگوں میں سے ہیں‘ جب تک آپ دخل نہ دیں گے معاملہ کیسے طے ہو سکتا ہے۔ عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے دونوں بیٹوں کی تقریریں سن کر کہا کہ عبداللہ کے مشورہ میں دین کی بھلائی اور محمد کے مشورہ میں دنیا کی بہتری ہے‘ اس کے بعد کچھ سوچ سمجھ کر سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیت المقدس سے روانہ ہو کر دمشق میں سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے‘ انہوں نے ان کے تشریف لانے کو بہت ہی غنیمت سمجھا‘ انہوں نے جاتے ہی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ مظلوم خلیفہ کا بدلہ لینا ضروری ہے اور آپ اس مطالبہ میں حق پر ہیں‘ ابتداً امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ان سے احتیاط کے ساتھ ملتے رہے‘ لیکن پھر ان پر پورے طور پر اعتماد کر کے ان کو اپنی حکومت کارکن رکین اور مشیرو وزیر بنا لیا۔ سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیا کہ عثمان رضی اللہ عنہ کا خون آلود قمیص‘ اور سیدنا نائلہ کی انگلیاں روزانہ لوگوں کے سامنے لانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس طرح ان کا جوش بتدریج کم ہونے لگے گا‘ مناسب یہ ہے کہ ان چیزوں کی نمائش کبھی کبھی خاص خاص موقعوں پر کی جائے‘ اس