تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
وقت تک دونوں لڑتے رہے‘ پھر ایک دوسرے سے جدا ہو کر اپنے اپنے لشکر کو واپس آ رہے تھے کہ اشتر نے اپنی فوج کو حملہ کا حکم دیا‘ ابوالاعور نے بھی اپنے آدمیوں کو حملہ آور کیا‘ شام تک کشت و خون جاری رہا‘ رات کی تاریکی نے حائل ہو کر لڑائی کو ملتوی کیا‘ فریقین اپنے اپنے خیموں میں رات بسر کرنے کے لیے چلے گئے۔ اگلے دن سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی پہنچ گئے اور معلوم ہوا کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی اپنا لشکر لیے ہوئے قریب آ پہنچے ہیں‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے لڑائی اور حملہ آوری موقف کرا کر اشتر کو حکم دیا کہ تم بہت جلد دریائے فرات کے ساحل پر پہنچ کر پانی پر قبضہ کر لو‘ اشتر جب فرات کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے پہلے ہی آ کر پانی پر قبضہ کر لیا ہے‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو جب یہ بات معلوم ہوئی‘ تو انہوں نے صعصعہ بن صوحان کو سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس پیغام دے کر بھیجا‘ کہ ہم تم سے اس وقت تک نہ لڑتے جب تک کہ تمہارے عذرات نہ سن لیتے اور بذریعہ تبلیغ حق تم پر پوری حجت نہ کر لیتے‘ لیکن تمہارے آدمیوں نے شتاب زدگی کر کے لڑائی چھیڑ دی‘ اب ہم مناسب یہی سمجھتے ہیں‘ کہ تم کو اول راہ حق کی دعوت دیں اور جب تک حجت پوری نہ کر لیں لڑائی شروع نہ کریں‘ مگر افسوس ہے کہ تم نے فرات پر قبضہ کر کے ہمارے لیے پانی بند کر دیا‘ لوگوں کا پیاس سے برا حال ہو رہا ہے‘ تم اپنے ہمرائیوں کو حکم دو کہ پانی لینے سے ہم کو نہ روکیں یہاں تک کہ نزاعی امور کا فیصلہ ہو جائے‘ اور اگر تم یہ چاہتے ہو کہ جس غرض سے ہم یہاں آئے ہیں اس کو فراموش کر کے پانی پر لڑیں اور جو غالب ہو وہی پانی پی سکے‘ تو ہم اس کے لیے بھی تیار ہیں۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اسی وقت اپنے مشیروں کو طلب کر کے یہ مسئلہ ان کے سامنے پیش کیا‘ عبداللہ بن سعد سابق گورنر مصر اور ولید بن عقبہ نے کہا کہ ہم کو پانی سے قبضہ نہیں اٹھانا چاہیے‘ اور ان کو پیاسا ہی مارنا چاہیے‘ کیونکہ ان لوگوں نے بھی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا پانی بند کر دیا تھا‘ اور ان کو پیاسا شہید کیا تھا‘ عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف رائے دی کہ پانی ہرگز بند نہ کیا جائے‘ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کو پیاس کی تکلیف نہ دی جائے‘ اسی مجلس میں صعصعہ اور ولید بن عقبہ کے درمیان ذرا سخت گفتگو ہوئی‘ اور بڑھتے بڑھتے گالی گلوچ تک نوبت پہنچ گئی‘ صعصعہ وہاں سے ناراض اٹھ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے‘ اور کہا کہ وہ ہم کو پانی لینے کی اجازت نہیں دیتے‘ سیدنا علی نے اشعث بن قیس کو سواروں کا دستہ دے کر بھیجا‘ کہ زبردستی پانی پر قبضہ کرو‘ ادھر سے ابوالاعور سلمی نے مقابلہ کی تیاری کی اور طرفین سے تیر بازی بھی ہوئی‘ نیزے بھی چلے‘ تلواریں بھی چمکیں‘ خون بھی بہا اور سر بھی جسم سے جدا ہوئے‘ لیکن یہ فیصلہ ابھی نہ ہونے پایا تھا کہ پانی پر کون فریق قابض و متصرف رہ سکے گا‘ اتنے میں سیدنا عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو سمجھایا کہ اگر تم نے پانی کے اوپر سے اپنا قبضہ نہ اٹھایا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ان کے لشکر کو پانی کی تکلیف پہنچی اور وہ پیاس کے مارے تڑپنے لگے تو خود تمہارے لشکر کے بہت سے آدمیوں کا جذبہ رحم متحرک ہوگا اور وہ تمہارا ساتھ چھوڑ چھوڑ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں جا ملیں گے‘ اور تم کو قساوت قلبی اور ظلم سے متہم کر کے سیدنا علی کی طرف سے لڑیں گے‘ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اسی