تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ناقہ کے سامنے دور تک میدان صاف کر لیا‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنی فوج کو پسپا ہوتے ہوئے دیکھ کر پھر حملہ کیا اور آگے بڑھایا‘ کئی مرتبہ ناقہ کے سامنے لڑنے والوں کی صفیں آگے بڑھیں اور پیچھے ہٹیں‘ بالآخر ایک شخص نے موقع پا کر ناقہ کے پائوں میں تلوار ماری اور ناقہ چلا کر سینے کے بل بیٹھ گیا۔ اس وقت سیدنا قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ ناقہ کے قریپ پہنچ گئے تھے‘ ناقہ کے گرتے ہی اہل جمل منتشر ہو گئے‘ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر نے حملہ کر کے ناقہ کا محاصرہ کر لیا‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو جو ان کے ساتھ تھے حکم دیا کہ جا کر اپنی بہن کی حفاظت کرو اور ان کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ پہنچنے ۱؎ اور تیروں کی بارش اپنے برسانے والوں کے اسلام و ایمان کی حقیقت کا پتہ دے رہی تھی۔ پائے‘ قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ ‘ محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ اور عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے کجادہ کی رسیاں کاٹ کر کجاوہ کو اٹھا کر لاشوں کے درمیان سے الگ لے جا کر رکھا اور پردہ کے لیے اس پر چادریں تان دیں۔ سیدنا علی خود تشریف لائے اور قریب پہنچ کر سلام علیک کے بعد کہا‘ اماں جان آپ کا مزاج بخیر ہے؟ سیدنا عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا‘ خداتعالیٰ آپ کی ہر ایک غلطی کو معاف کرے‘ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا’’اللہ تعالیٰ تمہاری بھی ہر ایک غلطی کو معاف کرے‘ اس کے بعد سردار ان لشکر یکے بعد دیگرے سیدنا ام المومنین کے سلام کو حاضر ہوئے‘ سیدنا قعقاع رضی اللہ عنہ سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا کہ کاش میں آج کے واقعہ سے بیس برس پہلے مر جاتی‘ سیدنا قعقاع رضی اللہ عنہ نے جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے اس قول کو روایت کیا تو انہوں نے بھی یہی فرمایا‘ کہ ’’کاش میں آج سے بیس برس پہلے مر جاتا۔ اس جنگ کا نام جنگ جمل اس لیے مشہور ہوا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا جس جمل پر سوار تھیں وہی جمل لڑائی کا مرکز بن گیا تھا‘ اس لڑائی میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کی طرف سے لڑنے والوں کی تعداد ۳۰ ہزار تھی‘ جس میں سے نو ہزار آدمی میدان جنگ میں کام آئے‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی فوج کی تعداد میدان جنگ میں بیس ہزار تھی‘ جس میں سے ایک ہزار ستر آدمی کام آئے۔ ۱؎ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے تمام مقتولین کے جنازہ کی نماز پڑھی سب کو دفن کرایا‘ لشکر گاہ اور میدان جنگ میں جو مال و اسباب تھا اس کے متعلق منادی کرا دی کہ جو شخص اپنے مال و اسباب کی شناخت کرے وہ لے جائے‘ جب شام ہو گئی‘ تو سیدنا ام المومنین رضی اللہ عنہ کو محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ ان کے بھائی نے بصرہ میں لے جا کر عبداللہ بن خلف خزاعی رضی اللہ عنہ کے مکان میں صفیہ بن الحارث بن ابی طلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس ٹھہرایا۔ اگلے دن سیدنا علی رضی اللہ عنہ بصرہ میں داخل ہوئے‘ تمام اہل بصرہ نے آپ کی بیعت کی‘ اس کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ سیدنا ام المومنین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے‘ چونکہ عبداللہ بن خلف اس معرکہ میں کام آ گئے تھے‘ لہذا عبداللہ بن خلف کی والدہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر بہت کچھ سخت سست کہا مگر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کسی بات کا جواب نہیں دیا‘ بعض ہمرائیوں نے کچھ گراں محسوس کیا تو آپ نے فرمایا‘ کہ عورتیں چونکہ ضعیف ہوتی ہیں‘ اس لیے ہم تو مشرکہ