تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نے سیدنا علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی تھی‘ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں ہم نے بیعت کی تھی‘ مگر اس شرط پر کہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص لیا جائے‘ دوسرے یہ کہ جب ہم سے بیعت لی گئی تھی‘ تو تلوار ہمارے سر پر تھی۔ یہاں سے اٹھ کر یہ لوگ بصرہ میں عثمان بن حنیف کے پاس واپس گئے‘ اور جو کچھ سن کر گئے تھے سنایا‘ عثمان بن حنیف نے سن کر انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھا‘ پھر ان لوگوں سے یعنی عمائدین بصرہ سے کہا کہ تمہارا کیا ارادہ ہے‘ انہوں نے کہا کہ خاموشی اختیار کرو‘ عثمان بن حنیف نے کہا کہ میں ان کو روکوں گا جب تک سیدنا علی رضی اللہ عنہ یہاں تشریف نہ لے آئیں‘ عمائدین بصرہ اپنے اپنے گھروں میں آ کر بیٹھ رہے۔ عثمان نے تمام بصرہ والوں کو لڑائی کے لیے تیار کرنے اور مسجد میں جمع ہونے کا اعلان کیا‘ جب لوگ مسجد میں جمع ہو گئے‘ تو عثمان بن حنیف نے بصرہ کے ایک شخص قیس نامی کو تقریر کرنے کے لیے کھڑا کیا‘ اس نے کہا کہ’’ لوگو! اگر طلحہ رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ اور ان کے ہمراہی مکہ سے یہاں اپنی جان کی امان طلب کرنے آئے ہیں تو یہ بات غلط ہے‘ کیونکہ مکہ میں تو چڑیوں تک کو جان کی امان حاصل ہے‘ کوئی کسی کو نہیں ستا سکتا‘ اور اگر یہ لوگ خون عثمان رضی اللہ عنہ کا بدلہ لینے آئے ہیں تو ہم لوگ عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتل نہیں ہیں‘ پس مناسب یہ ہے کہ ان کو جس طرف سے یہ آئے ہیں اسی طرف لوٹا دو۔ یہ تقریر سن کر اسود بن سریع سعدی نے اٹھ کر کہا کہ یہ لوگ ہم کو قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سمجھ کر نہیں آئے‘ بلکہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کا مقابلہ کرنے کے لیے ہم سے مدد طلب کرنے کے لیے آئے ہیں‘ یہ الفاظ سن کر لوگوں نے قیس مذکور پر کنکریاں پھینکنی شروع کیں اور جلسہ درہم برہم ہو گیا‘ عثمان بن حنیف کو یہ معلوم ہو گیا کہ بصرہ میں بھی طلحہ رضی اللہ عنہ و زبیر رضی اللہ عنہ کے ہمدرد و معاونین موجود ہیں۔ صف آرائی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا اپنے لشکر کو لیے ہوئے مقام مربد تک آ پہنچیں‘ تو عثمان بن حنیف اپنا لشکر لیے ہوئے بصرہ سے نکلا اور صف آراء ہوا‘ ام المومنین رضی اللہ عنہ کے لشکر کا میمنہ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کے سپرد تھا اور میسرہ کے سردار سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ تھے‘ جب دونوں لشکر آمنے سامنے ایک دوسرے کے قریب آ گئے‘ تو اول میمنہ کی جانب صف لشکر سے سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ نکلے اور انہوں نے حمدو صلوۃ کے بعد سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی فضیلتیں بیان کیں اور ان کے خون کا بدلہ لینے کی لوگوں کو ترغیب دی‘ اس کے بعد میسرہ کی جانب سے سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نکلے اور انہوں نے سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کی تقریر کی تصدیق کی‘ پھر اس کے بعد سیدنا ام المومنین رضی اللہ عنہ نے نصائح فرمائے۔ سیدنا ام المومنین رضی اللہ عنہ کی تقریر سن کر عثمان بن حنیف کے لشکریوں کے اسی وقت دو گروہ ہوں گئے‘ ایک تو عثمان بن حنیف کے ساتھ مقاومت اور مقابلہ پر آمادہ تھا اور دوسرے وہ جو طلحہ رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ سے لڑنے کو اچھا نہیں جانتے تھے‘ سیدنا ام المومنین رضی اللہ عنہ اور سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ و زبیر رضی اللہ عنہ سے لڑنے کو اچھا نہیں جانتے تھے‘ سیدنا ام المومنین رضی اللہ عنہ اور