تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
آئے‘ اور چھ سو اونٹ اور چھ لاکھ دینار لے کر آئے اوریہ تجویزیں ہونے لگیں کہ خون عثمان رضی اللہ عنہ کا معاوضہ لیا جائے۔ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ جب مدینہ سے روانہ ہو کر مکہ میں پہنچے‘ تو سیدنا ام المومنین رضی اللہ عنہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کو بلوا کر دریافت کیا کہ تم لوگ کس طرح تشریف لائے ہو‘ دونوں صاحبوں نے جواب دیا کہ مدینہ کے نیک اور شریف لوگوں پر اعراب اور بلوائی مستولی ہو گئے ہیں‘ ان ہی کے خوف سے بھاگ کر یہاں آئے ہیں‘ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ پھر تو تم کو ہمارے ساتھ ان کی طرف خروج کرنا چاہیے‘ دونوں صاحبوں نے آمادگی و رضامندی کا اظہار کیا۔ اہل مکہ سب سیدنا ام المومنین رضی اللہ عنہ کے تابع فرمان تھے‘ عبداللہ ابن عامر سابق گورنر بصرہ‘ یعلیٰ بن منبہ گورنر یمن‘ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ یہ چار شخص ام المومنین رضی اللہ عنہ کے لشکر میں سردار اور صاحب حل و عقد سمجھے جاتے تھے‘ اول کسی نے یہ مشورہ دیا کہ مکہ سے روانہ ہو کر اور مدینہ سے کترا کر ہم کو شام کے ملک میں جانا چاہیے‘ اس پر عبداللہ بن عامر نے کہا کہ ملک شام میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ موجود ہیں اور وہ ملک شام کو سنبھالے رکھنے کی کافی طاقت و اہلیت رکھتے ہیں‘ مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم سب یہاں سے بصرہ چلیں‘ وہاں میرے دوستوں اور ہمدردوں کی بھی ایک بھاری تعداد ضرور موجود ہے‘ میں وہاں اب تک عاملانہ حیثیت سے رہا ہوں‘ نیز اہل بصرہ کا رجحان طبع سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کی جانب زیادہ ہے لہذا بصرہ میں ہم کو یقینا کامیابی حاصل ہو گی‘ اور اس طرح ایک زبردست صوبہ اور بہت بڑی جمعیت ہمارے ہاتھ آ جائے گی‘ کسی شخص نے کہا کہ ہم کو مکہ ہی میں رہ کر کیوں نہ مقابلہ کرنا چاہیے‘ اس کے جواب میں عبداللہ ابن عامر نے کہا کہ مکہ والوں کو ضرور ہم خیال بنا چکے ہیں اور وہ ہمارے ساتھ ہیں لیکن ان لوگوں میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ اگر وہ لوگ جو مدینہ میں موجود ہیں حملہ آور ہوں تو ان کا حملہ سنبھال سکیں‘ لیکن یہاں سے اپنی طاقت اور جمعیت کو لے کر ہم بصرہ کی طرف گئے تو جس طرح اہل مکہ ہمارے ساتھ ہو گئے اسی طرح اہل بصرہ بھی یقینا ہمارے ساتھ ہو جائیں گے اور پھر ہماری طاقت اس قدر ہو گی کہ ہم ہر ایک حملہ کو سنبھال سکیں گے‘ اور خون عثمان رضی اللہ عنہ کے مطالبہ میں طاقت پیدا کر سکیں گے۔ غرض اس رائے کو سب نے پسند کیا اور بصرہ کی تیاریاں ہونے لگیں‘ اس کے بعد سب کی یہ رائے ہوئی کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ مکہ میں تشریف لائے ہوئے ہیں ان کو بھی شریک کرو‘ بلکہ ان ہی کو اپنا سردار بنائو‘ چنانچہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بلوائے گئے اور ان کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ پر خروج کریں‘ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ہم مدینہ والوں کے ساتھ ہیں جو وہ کریں گے‘ یہ جواب سن کر پھر ان سے کسی نے اصرار نہیں کیا۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کے سوا باقی امہات المومنین رضی اللہ عنھا بھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کے ساتھ مکہ میں تشریف لائی ہوئی تھیں‘ انہوں نے جب یہ سنا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا بصرہ کا قصد رکھتی ہیں‘ تو انہوں نے بھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کا ساتھ دینے اور ان کے ہمراہ رہنے کا ارادہ کیا‘ انہیں میں سیدنا حفصہ بنت عمر