تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
لوگوں نے ان کو پھر مقابلہ کر کے باہر نکال دیا‘ اس وقت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ قرآن شریف پڑھ رہے تھے جب اس آیت پر پہنچے۔ {اَلَّذِیْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ اِیْمَانًا وَّ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ } (آل عمران : ۳/۱۷۳) (یہ وہ لوگ ہیں جن کو لوگوں نے آ کر خبر دی کہ مخالف لوگوں نے تمہارے ساتھ لڑنے کے لیے بھیڑ جمع کی ہے‘ ذرا ان سے ڈرتے رہنا‘ تو اس خبر کو سن کر ان کے ایمان اور بھی زیادہ مضبوط ہو گئے اور بول اٹھے کہ ہم کو اللہ ہی کافی ہے‘ اور وہ بہترین کار ساز ہے) تو حاضرین سے مخاطب ہو کر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے ایک عہد لیا ہے‘ میں اپنے اس عہد پر قائم ہوں‘ اور تم ہرگز ان بلوائیوں کا مقابلہ اور ان سے قتال بالکل نہ کرو‘ سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ تم ابھی اپنے باپ کے پاس چلے جائو‘ لیکن انہوں نے جانا پسند نہ کیا اور دروازے پر بلوائیوں کو روکتے رہے۔ مغیرہ بن الاخنس رضی اللہ عنہ یہ حالت دیکھ کر تاب نہ لا سکے‘ اپنے چند آدمیوں کو لے کر بلوائیوں کے مقابلے پر آئے اور لڑ کر شہید ہوئے‘ اسی طرح سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی یہ کہتے ہوئے {وَیَاقَوْمِ مَا لِی اَدْعُوْکُمْ اِِلَی النَّجَاۃِ وَتَدْعُوْنَنِی اِِلَی النَّارِ }(المؤمن : ۴۰/۴۱) (لوگو! مجھے کیا ہوا ہے کہ میں تم کو نجات کی طرف بلاتا ہوں اور تم مجھے آگ کی طرف بلاتے ہو) بلوائیوں پر ٹوٹ پڑے‘ سیدنا عثمان غنی کو جب معلوم ہوا تو انہوں نے باصرار سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو واپس بلوایا اور لڑائی سے باز رہنے کاحکم دیا‘ اسی عرصہ میں سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ تشریف لائے‘ انہوں نے بلوائیوں کو سمجھانا اور فتنہ سے باز رکھنا چاہا‘ لیکن بجائے اس کے کہ ان کی نصیحت کا بلوائیوں پر کچھ اثر ہوتا وہ سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے بھی لڑنے پر آمادہ ہو گئے۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے مکان میں جس قدر آدمی تھے ان میں سے کچھ تو کوٹھے پر چڑھے ہوئے تھے اور باغیوں کی کوشش اور نقل و حرکت کے نگراں تھے کچھ لوگ دروازے پر تھے اور باہر سے داخل ہونے اور گھسنے والے بلوائیوں کو اندر آنے سے روک رہے تھے‘ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی نائلہ بنت الفرافصہ گھر میں تھے بلوائیوں نے ہمسایہ کے ایک گھر میں داخل ہو کر اور دیوار کود کر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر حملہ کیا‘ سب سے پہلے محمد بن ابی بکر سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے قریب پہنچا اور ان کی داڑھی پکڑ کر کہا کہ اے نعثل (احمق بوڑھے) اللہ تعالیٰ تجھ کو رسوا کرے‘ سیدنا عثمان نے کہا کہ میں نعثل نہیں‘ بلکہ عثمان امیر المومنین ہوں‘ محمد بن ابی بکر نے کہا کہ تجھ کو اس بڑھاپے میں بھی خلافت کی ہوس ہے‘ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تمہارے باپ ہوتے تو وہ میرے اس بڑھاپے کی قدر کرتے اور میری اس ڈاڑھی کو اس طرح نہ پکڑتے‘ محمد بن ابی بکر یہ سن کر کچھ شرما گیا اور ڈاڑھی چھوڑ کر واپس چلا آیا۔ اس کے واپس چلے جانے کے بعد بدمعاشوں کا ایک گروہ اسی طرف سے دیوار کود کر اندر آیا جس میں بلوائیوں کا ایک سرغنہ عبدالرحمن بن عدیس‘ کنانہ بن بشر‘ عمروبن