تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
خلافت عثمانی کے واقعات پڑھ کر بے اختیار قلب پر یہ نمایاں اثر ہوتا ہے کہ ہم عہد نبوی اور خلافت صدیقی و فاروقی کے زمانے کو طے کر کے کسی نئے زمانے میں داخل ہوتے ہیں‘ اس زمانے کی آب و ہوا بھی نئی ہے اور لوگوں کی وضع قطع میں بھی غیر معمولی تغیر پیدا ہو گیا ہے‘ زمین و آسمان غرض ہر چیز کی کیفیت متغیر ہے‘ خلافت فاروقی تک مسلمانوں کی نگاہ میں مال و دولت کی کوئی وقعت و قیمت نہ تھی‘ خود خلیفہ کی یہ حالت ہوتی تھی کہ اپنے اہل و عیال کی ضروریات پورا کرنے کے لیے دوسرے لوگوں سے بھی بہت ہی کم روپیہ اس کے ہاتھ میں آتا تھا‘ اور اس بے زری و افلاس کو نہ خلیفہ وقت کوئی مصیبت تصور فرماتا تھا‘ نہ عام لوگ مال و دولت کی طرف خواہشمند نظر آتے تھے مسلمانوں کی سب سے بڑی خواہش اعلاء کلمتہ اللہ اور ان کی سب سے بڑی مسرت راہ اللہ تعالیٰ میں قربان ہو جانا تھا۔ عہد عثمانی میں یہ بات محسوس طور پر کم ہو گئی تھی‘ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ تو پہلے ہی سے مال دار شخص تھے‘ خلیفہ ہونے کے بعد بھی ان کی اور سابقہ ہر دو خلفاء کی حالتوں میں نمایاں فرق نظر آنا چاہیے تھا‘ چنانچہ وہ فرق نظر آیا‘ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے آخر زمانے تک فتوحات کا سلسلہ جاری رہا اور دولت مند و زرخیز علاقے ان کے زمانے میں مسلمانوں نے مسخر و مفتوح کئے‘ ان کی دولت تو مسلمانوں کے قبضہ میں آ گئی اور آرہی تھی‘ لیکن وہ اس دولت کے استعمال اور عیش و راحت حاصل کرنے کے طریقوں سے نا آشنا تھے‘ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں مسلمانوں نے حاصل شدہ دولت سے عیش حاصل کرنا شروع کیا‘ مدینہ کے معمولی چھپر محلوں اور ایوانوں کی شکل میں تبدیل ہونے لگے‘ لوگوں کے دلوں میں جائیداد حاصل کرنے اور روپیہ جمع رکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ اس شوق کے ساتھ ہی سپہ گری و مردانگی کا خصوصی جذبہ جو مسلمانوں اور عربوں کا امتیازی نشان تھا‘ کافور ہونے لگا‘ سپاہیانہ اخلاق کی جگہ آج کل کی اصطلاح کے مطابق رئیسانہ اخلاق پیدا ہونے لگے جن کو حقیقتاً زنانہ اخلاق کہنا چاہیے اور یہ سب سے بڑی مصیبت اور سب سے بڑی بدنصیبی تھی جو مسلمانوں پر وارد ہوئی۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے زمانے تک قریشی اور حجازی عرب جن میں اکثر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا زمانہ دیکھے ہوئے تھے ایک غالب عنصر کی حیثیت سے موجود تھے‘ وہ سب کے سب اسلام کو اپنی چیز سمجھتے اور اپنے آپ کو اسلام کا وارث جانتے تھے‘ اسلام کے مقابلے میں قبائلی امتیاز ان کے دلوں سے بالکل مٹ گئے تھے‘ اسلام کے رشتہ سے بڑھ کر ان کے نزدیک کوئی رشتہ نہ تھا اور اسلام سے بڑھ کر ان کے لیے کوئی محبوب چیز نہ تھی‘ فتوحات کے وسیع ہونے اور ممالک اسلامیہ کی تعداد کے کثیر ہونے سے مسلمانوں کی افواج اور مسلمانوں کی جمعیت میں ایسے لوگوں کی تعداد بہت بڑھ گئی جو ابھی چند روز سے اسلام میں داخل ہوئے تھے اور ان کے دلوں میں اسلامی محبت ‘ قبائلی امتیاز‘ اور قومی و خاندانی خصوصیات پر غالب نہیں ہونے پائی تھی۔ عہد فاورقی کی فتوحات کثیرہ و عظیمہ جن افواج کے ذریعہ ہوئیں ان میں بنی بکر‘ بنی وائل‘ بنی عبدالقیس‘ بنی ربیعہ‘ بنی ازد‘ بنی کندہ‘ بنی تمیم ‘ بنی قضاعہ وغیرہم قبائل کے لوگ زیادہ تھے‘ انہیں لوگوں نے ایرانی صوبوں‘ شامی علاقوں اور مصرو فلسطین وغیرہ کو فتح کیا تھا‘ انہیں کے ذریعہ ایرانی و رومی شہنشاہیوں کے پرخچے اڑے تھے‘ لیکن ان