تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حکمران منتخب کرانے اور ولی عہد بنانے کی جرات کرتا۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ایک سے زیادہ بیٹے اس قابل تھے کہ وہ حکمرانی کر سکیں اور امور سلطنت کو چلا سکیں‘ لیکن انہوں نے سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں میں بہترین شخص پایا اور انہیں کے لیے مسلمانوں سے فرمائش اور سفارش کی‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے بیٹے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ یقینا اس قابل تھے کہ مسلمانوں کے خلیفہ ہوں‘ لیکن سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ چونکہ اس رسم بد کو مٹانے اور بالکل ختم کرنے کے خواہش مند تھے لہذا انہوں نے نہ اس لیے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ناقابل خلافت تھے بلکہ صرف اس لیے کہ وراثتی حکومت کا رواج مٹ جائے خاص طور پر وصیت فرما دی کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہرگز خلیفہ منتخب نہ کئے جائیں۔ لوگوں کی سب سے بڑی نادانی اور نابینائی یہ ہے کہ وہ شخصی حکومت کی برائیاں اور شخصی حکومت کے نقصانات دیکھ دیکھ کر ان برائیوں اور نقصانوں کا اصل سبب دریافت نہیں کرتے بلکہ شخصی حکومت کے عام طور پرمخالف ہو کر جمہوریت کی مدح سرائی شروع کر دیتے ہیں‘ شخصی حکومتوں کی جس قدر برائیاں ہم کو نظر آتی ہیں ان سب کا اصل الاصول یہ ہے کہ شخصی حکومت نے وراثت میں دخل پا لیا ہے اور بادشاہ‘ یا حکمران کے انتخاب کا حق لوگوں سے چھن گیا ہے۔ پس عقل کا تقاضا یہ ہے کہ ہم برائیوں کے اصل منبع یعنی وراثت کی رسم کو سلطنت کے معاملہ میں دخیل نہ ہونے دیں‘ اور باپ کے بعد اس کے بیٹے کو اگر وہ سب سے بہتر نہیں ہے تو ہرگز اپنا حاکم نہ بننے دیں اوراگر وہی سب سے بہتر ہے تب بھی اپنے اختیار اور عامۃ المسلمین کی عام منظوری کے بعد اس کو حکمراں تسلیم کریں‘ یہ کون سی دانائی ہے کہ ایک غلطی سے بچنے کے لیے دوسری ویسی ہی غلطی کے مرتکب ہوں۔ شخصی حکومت میں بادشاہ کو زیادہ مظالم اور زیادہ نالائقیوں کے ارتکاب کا موقع عوام کی بزدلی اور کم ہمتی کے سبب مل جاتا ہے‘ بزدلی اور پست ہمتی کے سبب جو اطاعت و فرماں برداری کی جاتی ہے اسمیں اور اس فرماں بردای میں جو احساس فرض اور استحقاق کی بناء پر کی جاتی ہے زمین و آسمان کا فرق ہے‘ شاید یہ بات اس طرح سمجھ میں آ جائے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بعض عامل جو صوبوں کے گورنر ہیں کہتے ہیں کہ ہم کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ایک ہاتھ ہمارے نیچے کے جبڑے پر ہے اور ایک اوپر کے جبڑے پر‘ اگر ہم ذرا بھی بے راہ روی اختیار کریں تو عمر رضی اللہ عنہ ہمارے دونوں جبڑے فوراً چیر ڈالے گا‘ سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا حکم خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچتا ہے اور وہ سپہ سالار افواج کے مرتبہ سے گرا کر ایک ماتحت بنا دئیے جاتے ہیں‘ اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جیسا فتح مند سالار لشکر بلاچون و چرا حکم کی تعمیل کرتا ہے۔ اب دوسری طرف دیکھو کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو برسرمنبر ٹوکا جاتا ہے اور ایک معمولی شخص ان کی امانت و دیانت کا امتحان لیتا ہے‘ ایک عورت مہروں کی نسبت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ایک تقریر سن کر بلا تکلف اعتراض کرتی ہے۔ اور خلیفہ وقت کو برسر منبر اقرار کرنا پڑتا ہے کہ مدینہ کی عورتیں بھی مجھ کو میری غلطی سے آگاہ کر سکتی ہیں‘ اب غور کرو کہ یہ کس قسم کی فرمانبرداری ہے جو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی کی جاتی ہے‘ دوسری طرف اس فرمانبرداری کو