تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دنیا میں ہر ایک باپ اپنے بیٹے سے فرمانبرداری کی توقع رکھتا ہے اور بیٹے کے لیے یہی مفید ہے کہ وہ اپنے باپ کی فرمانبرداری کرے‘ ہر ایک استاد اپنے شاگردوں سے فرمانبرداری کا خواہاں ہے اور شاگردوں کے لیے یہی مفید ہے کہ وہ استاد کی فرماں برداری کریں۔ ہر ایک لیڈر اور ہر ایک رہبر اپنے پیروئوں سے پیروی اور فرماں برداری کا خواہاں ہے اور ان کے لیے یہی مفید ہے کہ وہ پیروی اور فرمانبرداری بجا لائیں۔ ہر ایک سپہ سالار میدان جنگ میں اپنے سپاہیوں سے اپنے احکام کی تعمیل چاہتا ہے اور سپاہیوں کے لیے یہی مفید ہے کہ وہ اپنے سپہ سالار کی بلاچون و چرا فرمانبرداری کریں۔ جمہوریت کا مجموعی اثر یہ مرتب ہوتا ہے کہ بیٹا اپنے باپ کی‘ شاگرد اپنے استاد کی ‘ عوام اپنے ۱؎ یہاں مذہب سے مراد دین ہے۔ ہر الہامی مذہب فی الحقیقت اصطلاحاً دین کہلاتا ہے‘ اور مذہب وہ تب بنتا ہے جب اس میں سے منزل من اللہ روح نکل جائے اور وہ لوگوں کے افکار وغیرہ کے شامل ہونے کے بعد مردہ کی طرح رہ جائے۔ ۲؎ اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہی دین ہے : {اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ} (آل عمران : ۳/۱۹) لیڈر کی سپاہی اپنے سپہ سالار کی اطاعت و فرمانبرداری کو اپنے لیے محنت اور سرا سرگراں محسوس کرنے لگتے ہیں اور رفتہ رفتہ یہ تمام چیزیں زائل ہو کر انسان اس دہریت اور لامذہبیت کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے جو اس کو انسانیت سے خارج کر کے بہیمیت کے مقام پر لانا چاہتی ہے۔ جمہوریت کا مقام چونکہ مذہبیت کے خلاف واقع ہوا ہے‘ لہذا جس قدر مذہبیت کو صدمہ پہنچے گا اسی قدر امن و سکون اور راحت و اطمینان ملک و قوم سے فنا ہو جائے گا‘ کیونکہ حقیقی مدنیت اور حقیقی امن و سکون صرف مذہب کی بدولت دنیا میں قائم ہو سکتا ہے‘ حکومت و سلطنت اس معاملہ میں ہمیشہ ناکام رہی ہے‘ گھروں کے اندر‘ تنہائی کے موقعوں‘ بیابانوں ‘ ریگستانوں‘ راستوں وغیرہ میں انسان حکومت کی طاقت اور پولیس کی نگرانی سے بالکل آزاد ہوتا ہے‘ ان مقامات پر قتل چوری‘ زنا وغیرہ جرائم سے مذہب ہی باز رکھ سکتا ہے‘ نہ کہ حکومت‘ اگر روئے زمین کے تمام باشندے لامذہب ہو جائیں تو سطح زمین کشت و خون‘ قتل و غارت ‘ چوری زنا‘ جھوٹ‘ فریب وغیرہ بدتمیزیوں اور شرارتوں سے لبریز ہو کر نوع انسانی کے لیے جہنم بن جائے۔۱؎ یورپ و امریکہ کی جمہوریتوں میں ہم کوئی ایسی چیز نہیں دیکھتے جس کے لیے بجا طور پر ہمارے دل میں رشک پیدا ہو سکے۔ انہیں ملکوں میں لامذہبیت زیادہ پائی جاتی ہے‘انہیں میں معاشرت انسانی بے حیائی کی طرف زیادہ مائل ہے‘ انہیں میں وعدہ خلافی بے وفائی‘ خود مطلبی‘ دروغ بیانی‘ دھوکہ دہی وغیرہ لوگوں کے عام چال چلن کا جزو بن جاتے ہیں‘ جمہوری حکومتوں میں کوئی نپولین ‘ کوئی قیصرولیم‘ کوئی جولیس سیرز‘ کوئی تیمور‘ کوئی ہنی بال‘ کوئی صلاح الدین‘ کوئی سلیمان قانونی‘ کوئی شیر شاہ‘ کوئی عالمگیر‘ بھی ہرگز پیدا نہیں ہو سکتا اور پیدا ہو کر زندہ نہیں رہ سکتا‘ کسی خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا پیدا ہونا تو بہت ہی بڑی بات ہے۔ انسانی فریب خوردگیوں اور انسانی پست ہمتیوں‘ کی غالباً یہ سب سے زیادہ بد نما اور عظیم الشان مثال ہے کہ ہم آج بہت سے مسلمانوں کو بھی یورپ و امریکہ والی جمہوریتوں کا خواہش مند دیکھ رہے ہیں جو اسلام کی تعلیم کے سراسر خلاف اور بنی نوع انسان کے لیے بڑی ہی خطرناک چیز ہے‘ مسلمانوں کے خیالات کا یہ تغیر نتیجہ ہے ان کی بزدلی