تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ایک طرف صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو اطلاع دی‘ دوسری طرف انہوں نے مناسب سمجھا کہ ہم کو ایک جگہ متحد ہو کر مقابلہ کرنا چاہیے۔ اتفاق کی بات کہ ادھر چاروں سردار اپنی اپنی فوجوں کو لیے ہوئے ایک جگہ یرموک میںجمع ہوئے‘ ادھر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے رومی لشکر کی کثرت اور تیاریوں کا حال سن کر ایک طرف تو چاروں سرداروں کے نام ایک جگہ جمع ہو کر مقابلہ کرنے کا حکم بھیجا‘ دوسری طرف سیدنا خالدبن ولید رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ تم صوبہ حیرہ میں اپنی جگہ مثنی بن رضی اللہ عنہ حاثہ کو وہاں کا ذمہ دار افسر بنا کر نصف فوج مثنی رضی اللہ عنہ کے پاس چھوڑ کر اور نصف فوج خود لے کر شام کی طرف چلے جائو اور وہاں کی تمام افواج اسلام کا اہتمام بحیثیت سپہ سالار اعظم اپنے ہاتھ میں لے لو۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ دیکھ چکے تھے کہ خالد رضی اللہ عنہ بن ولید نے ایرانی افواج کو کس طرح پیہم شکستیں دے کر ایک بڑا علاقہ سلطنت ایران سے چھین لیا ہے‘ ان کی نظر میں خالد رضی اللہ عنہ سے بہتر کوئی شخص نہ تھا جو اس خطرناک حالت میں رومیوں کا مقابلہ کامیابی سے کر سکے‘‘ یہ بھی جانتے تھے کہ خالد کا سب سے بڑا اور سب سے پہلا کارنامہ جنگ موتہ تھا کہ انہوں نے اسلامی لشکر کی بگڑی ہوئی تھی حالت کو سدھار لیا تھا‘ جس کے صلہ میں بارگاہ ایزدی سے ان کو سیف اللہ کا خطاب ملا تھا‘ لہذا انہوں نے مناسب سمجھا کہ چاروں نہایت زبردست اور قابل سپہ سالاروں کے پاس سیف اللہ کو بھیجنا اور ان چاروں پر ان کو سردار بنا دینا ضرور مفید ہو گا چنانچہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے دس ہزار فوج مثنی بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے پاس چھوڑ دی‘ اور دس ہزار فوج لے کر شام روانہ ہوئے۔ ادھر ہرقل نے جب یہ دیکھا کہ چاروں اسلامی لشکر ایک جگہ جمع ہو گئے ہیں تو اس نے بھی اپنے چاروں سرداروں کو حکم دیا کہ ایک جگہ جمع ہو کر مقابلہ کرو‘ چاروں رومی لشکر جمع ہو کر چشمہ یرموک کے دوسری جانب ایک ایسے بیضوی میدان میں خیمہ زن ہوئے جو پشت کی جانب پہاڑ اور سامنے کی جانب پانی سے محصور تھا‘ اس دو لاکھ چالیس ہزار رومی لشکر کا سپہ سالار اعظم ہرقل کا بھائی تذارق تھا‘ ہرقل نے اس کو لکھا کہ میں ایک زبردست لشکر اور تمہاری کمک کے لیے روانہ کر رہا ہوں‘ چنانچہ ماہان نامی سردار کو یرموک کی طرف روانہ کیا‘ اسلامی لشکر جو چشمہ یرموک کے اس طرف میدان میں پڑا ہوا تھا خود رومیوں پر اپنی قلت کے سبب حملہ نہ کر سکتا تھا‘ ادھر رومی جو ایک قدرتی حصار کے اندر محفوظ تھے باہر نکل کر مسلمانوں پر حملہ آور ہونے میں پس و پیش کر رہے تھے۔ یرموک میں جب دونوں طرف کے لشکر جمع ہوئے ہیں تو صفر کا مہینہ تھا‘ انہیں ایام میں یا دو چار روز بعد سیدنا خالد رضی اللہ عنہ بن ولید عراق سے اپنا دس ہزار لشکر لے کر یرموک کی جانب روانہ ہوئے‘ راستہ میں سیدنا خالد بن ولید کو کئی جگہ دشمن قبائل اور دشمن رئیسوں کی فوجوں نے روکا ٹوکا‘ ہر جگہ خالد لڑتے دشمنوں کو مارتے بھگاتے اور سامنے سے ہٹاتے ہوئے ماہ ربیع الاول ۱۳ ھ میں یرموک پہنچ گئے‘ یرموک میں ہرقل کی طرف سے کئی سردار اور بطریق فوجی امداد کے ساتھ رومی لشکر میں آ آ کر شریک ہو چکے تھے‘ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کے آنے سے پہلے اگرچہ معمولی چھیڑ چھاڑ دونوں لشکروں میں ہو جاتی تھی‘ مگر کوئی اہم قابل تذکرہ معرکہ ابھی تک نہیں ہوا تھا۔ جنگ یرموک