تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
رضی اللہ عنہ کی طرف روانہ کر دیا‘ ان کے بعد سیدنا عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کو ایک لشکر دے کر روانہ کر دیا کہ خالد بن ولید اور ان کے ہمراہیوں کو ساتھ لیتے ہوئے فلسطین کے راستے حملہ آور ہوں۔ ان کے بعد آئے ہوئے قبائل کی ایک فوج مرتب کر کے یزید بن ابی سفیان کو سردار بنا کر روانہ کیا اور حکم دیا کہ تم دمشق کی طرف جا کر حملہ آور ہو۔ پھر ایک فوج ترتیب دے کر اس کا سردار سیدنا ابوعبیدہ ابن الجراح کو بنایا اور حکم دیا کہ تم حمص کی جانب جا کر حملہ کرو۔ اسی عرصہ میں شرجیل بن حسنہ عراق کی طرف سے مدینہ منورہ تشریف لائے تھے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ایک اور لشکر مرتب فرما کر اس کا سردار شرجیل بن حسنہ کو مقرر فرما دیا اور حکم دیا کہ تم اردن کی جانب سے حملہ کرو‘ اس طرح صدیق اکبر نے چار لشکر مرتب فرما کرچار مختلف راستوں سے ماہ محرم ۱۳ ھ میں روانہ کئے کہ ملک شام پر حملہ آور ہوں۔ جب یہ چاروں لشکر حدود شام میں پہنچے اور ہرقل کو اس کی اطلاع ملی کہ عربوں نے چار حصوں میں منقسم ہو کر چار مقامات پر حملہ آوری کا قصد کیا ہے تو اس نے بھی اپنے چار سپہ سالاروں کو چار عظیم الشان لشکر دے کر الگ الگ روانہ کیا۔ عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص کے مقابلہ کے واسطے اس نے اپنے حقیقی بھائی تذارق کو نوے ہزار فوج دے کر فلسطین کی طرف روانہ کیا۔ جرجہ بن نوذیہ کو چالیس ہزار فوج دے کر یزید بن ابی سفیان کے مقابل دمشق کی سمت بھیجا۔ راقص نامی سردار کو پچاس ہزار فوج کے ساتھ شرجیل بن حسنہ کے مقابلہ پر اردن کی جانب اور رفیقاء بن نسطورس کو ساٹھ ہزار سوار کی جمعیت کے ساتھ ابوعبیدہ بن الجراح کے مقابلہ کو حمص کی طرف روانہ کیا۔ ہرقل نے اپنے چاروں سرداروں کے ماتحت کل دو لاکھ چالیس ہزار فوج مسلمانوں کے مقابلہ کی غرض سے روانہ کی‘ حالاں کہ مسلمانوں کے چاروں لشکروں کا مجموعہ تیس ہزار کے قریب تھا۔ اس سے بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ ہرقل نے کیسی زبردست تیاریاں مسلمانوں کے استیصال کی پہلے سے کر رکھی تھیں‘ لیکن اس میں شک نہیں کہ خود ہرقل اپنی ذات سے اس بات کا خواہشمند نہ تھا کہ ضرور مسلمانوں سے لڑے اور وہ تو لڑائی کو ٹالنا اور جہاں تک ممکن ہو مسلمانوں سے بے تعلق رہنا چاہتا تھا‘ لیکن اس کے تمام درباری‘ تمام امراء‘ تمام سردارن فوج‘ اور تمام صوبیدار ہمہ تن آمادہ و مستعد تھے کہ ملک عرب پر حملہ کیا جائے‘ اس مطلب کو ان الفاظ میں بھی ادا کیا جا سکتا ہے کہ ہر قل تو لڑائی پر آمادہ نہ تھا‘ لیکن رومی گورنمنٹ پورے پر طور پر آمادہ و مستعد تھی‘ لہذا ہرقل کو رومی گورنمنٹ کا شہنشاہ ہونے کی حیثیت سے ہر ایک اہتمام ایک ہوشیار و تجربہ کار مہتمم کی طرح کرنا پڑتا تھا۔ مسلمان سردار اگرچہ ایک دوسرے سے جدا سفر کر رہے تھے لیکن حکم صدیقی کے موافق ایک دوسرے کے حالات سے باخبراور آپس میں سلسلہ پیام رسانی کو قائم رکھے ہوئے تھے‘ جب حدود شام میں داخل ہونے کے بعد ان کو معلوم ہوا کہ ہر ایک لشکر کے مقابلہ پر اس سے آٹھ گنی رومی فوج جو ہر طرح کیل کانٹے سے درست ہے آ رہی ہے تو