تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سیدنا خالد رضی اللہ عنہ بن ولید نے ایک تجربہ کار سپہ سالار کی حیثیت سے تمام حالات کا معائنہ کیا‘ ایک رات ان کو محسوس ہوا کہ صبح رومی لشکر متفقہ طور پر حملہ آور ہو گا‘ انہوں نے رات ہی کے وقت تمام لشکر اسلام کو جس کی تعداد چالیس ہزار سے چھیالیس ہزار تک بیان کی گئی ہے بہت سے چھوٹے چھوٹے دستوں میں تقسیم کر کے ہر ایک دستہ پر ایک ایک تجربہ کار بہادر شخص کو افسر مقرر کیا اور چیدہ چیدہ بہادروں کا ایک مختصر دستہ اپنی رفاقت کے لیے مخصوص کر کے نہایت عمدگی کے ساتھ ہر ایک افسر کو اس کے فرائض اور مناسب ہدایات سمجھا دیں۔ رومی لشکر کی جانب سے اول چالیس ہزار سواروں کے ایک لشکر نے حملہ کیا‘ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ بن ولید نے اپنے مٹھی بھر رفیقوں کے ساتھ آگے بڑھ کر اس لشکر کو بھگا دیا‘ اس کے بعد جرجہ بن بوذیہ رومی سردار آگے بڑھ کر آیا اور خالد رضی اللہ عنہ بن ولید کو کچھ باتیں کرنے کے لیے طلب کیا‘ خالد رضی اللہ عنہ بن ولید اس کے پاس گئے‘ اس نے خالد رضی اللہ عنہ بن ولید سے اسلام کے متعلق کچھ سوالات کئے‘ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اس کو نہایت خوبی کے ساتھ اسلام کی حقیقت سمجھائی‘ وہ اسی وقت مسلمان ہو کر تنہا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ہمراہ اسلامی لشکر میں چلے آئے اور پھر مسلمانوں کے ساتھ شریک ہو کر رومی لشکر پر حملہ آور ہوئے‘ اسی لڑائی میں جرجہ بن بوذیہ نہایت بہادری کے ساتھ لڑ کر شہید ہوئے۔ دونوں طرف سے سخت حملہ شروع ہوا‘ اسلامی سرداروں کی حیرت انگیز بہادری نے باوجود مسلمانوں کی کمی کے کسی لشکری کے دل میں ہمت ہارنے اور بد دل ہونے کے خیال تک کو بھی نہیں آنے دیا‘ جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ عورتوں نے بھی جو اسلامی لشکر کے ساتھ تھیں‘ لڑنے اور کفار کے قتل کرنے میں حصہ لیا‘ ابی سفیان رجز پڑھ پڑھ کر دلوں میں جوش اور لڑائی کی امنگ پیدا کر رہے تھے‘ سیدنا عکرمہ نے بلند آواز سے کہا کہ کون ہے جو میرے ہاتھ پر موت کے لیے بیعت کرے‘ اسی وقت سیدنا ضرار بن ازدر اور دوسرے چار سو آدمیوں نے بیعت کی کہ ہم یا تو شہید ہو جائیں گے یا فتح مند ہو کر میدان سے واپس آئیں گے‘ اس کے بعد یہ جماعت رومی لشکر میں بھوکے شیروں کی طرح گھس گئی‘ سیدنا مقداد بلند آواز سے سورہ انفال کی تلاوت فرما کر غازیان اسلام کے دلوں میں شوق شہادت پیدا کر رہے تھے‘ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ‘ ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ ‘ شرجیل بن حسنہ‘ یزید بن ابی سفیان‘ عکرمہ رضی اللہ عنہ بن ابی جہل ‘ قعقاع رضی اللہ عنہ بن عمر‘ ابوسفیان رضی اللہ عنہ ‘ ابودائود رضی اللہ عنہ ‘ عمرو رضی اللہ عنہ بن عاص‘ حارث بن ضرار رضی اللہ عنہ ‘ جرجہ رضی اللہ عنہ بن بوذیہ وغیرہ بہادران اسلام نے وہ وہ کار ہائے نمایاں کئے کہ چشم فلک نے آج تک نہ دیکھے تھے‘ صبح سے شام تک شمشیر و خنجر اور تیروسنان کا استعمال بڑی تیزی اور سرگرمی سے جاری رہا‘ ظہر و عصر کی نمازیں غازیان اسلام نے محض اشاروں سے میدان جنگ میں لڑتے ہوئے پڑھیں‘ دن ختم ہو گیا مگر لڑائی ختم نہ ہوئی۔ بالآخر رومی دن بھر کی صعوبت کشی سے افسردہ و مضمحل ہو کر مسلمانوں کے مقابلہ پر نہ جم سکے‘ پیچھے ہٹے اور ہٹتے ہٹتے دامن کوہ میں پہنچے‘ لیکن مسلمان ان کے ساتھ ساتھ بڑھتے بڑھتے اور دھکیلتے ہوئے گئے‘ جب پیچھے ہٹنے اور بھاگنے کی جگہ نہ ملی تو ادھر ادھر کو پھوٹ پھوٹ کر ان کا سیلاب نکلا‘ مسلمانوں نے ان کا پیچھا