تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
شامل تھا‘ جس کا اوپر عہد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کے واقعات میں تذکرہ آ چکا ہے‘ جب وہ اپنے وطن یمامہ کی طرف واپس ہوا تو انہیں ایام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ناسازی طبع کی خبر مشہور ہوئی‘ مسیلمہ نے نبوت کا دعویٰ کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں خط روانہ کیا کہ نبوت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور میں دونوں شریک ہیں‘ لہذا نصف ملک قریش کا اور نصف میرا رہے گا‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو جواباً لکھا کہ: بسم اللہ الرحمن الرحیم ط من محمد رسول اللہ الی مسیلمۃ الکذاب سلام علی من اتبع الھدی امابعد فان الارض للہ یور ثھا من یشاء من عبادہ والعاقبۃ للمتقین۔ ’’شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان‘ نہایت رحم کرنے والا ہے۔ اللہ کے رسول محمد( صلی اللہ علیہ و سلم ) کی طرف سے مسیلمہ کذاب کے نام! سلامتی ہو اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے۔ اما بعد! بے شک (یہ زمین اللہ کی ہے‘ وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے۔ اور (بہتر) انجام کار اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے ہے۔‘‘ اس جواب کے روانہ کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بنو حنیفہ کے ایک معزز شخص رجال بن عنفوہ کو‘ جو ہجرت کر کے مدینہ میں آ گیا تھا اور اس کا اپنی قوم پر بوجہ ہجرت کر جانے کے اور بھی زیادہ اثر تھا‘ مسیلمہ کے پاس روانہ کیا کہ اس کو نصیحت کر کے اسلام پر قائم کرے۔ رجال نے یمامہ میں پہنچ کر مسیلمہ کی تائید کی اور اس کا متبع بن گیا‘ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسیلمہ کی خوب گرم بازاری ہو گئی۔ وفات نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد مسیلمہ کذاب کا فوراً تدارک نہ ہو سکا کیونکہ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی توجہ مختلف جہات پر تقسیم ہو گئی تھی‘ عکرمہ ابن ابی جہل کو مسیلمہ کی سرکوبی کے لیے نام زد فرما کر روانہ کیا گیا تھا اور ان کے پیچھے شرجیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کو کمک دے کر روانہ کیا تھا‘ عکرمہ رضی اللہ عنہ نے مسیلمہ کے قریب پہنچ کر شرجیل کے شریک ہونے سے پہلے ہی شتاب زدگی سے حملہ کر کے شکست کھائی۔ اس خبر کو سن کر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عکرمہ رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ تم اب مدینہ واپس نہ آئو بلکہ حذیفہ و عرفجہ کے پاس چلے جائو‘ اور ان کی ماتحتی میں مہرہ اور اہل عمان سے لڑو۔ جب اس مہم سے فارغ حال ہو جائو تو معہ اپنے لشکر کے مہاجر بن ابی امیہ رضی اللہ عنہ کے پاس یمن و سیدنا موت میں چلے جائو۔ اور شرجیل بن حسنہ کو لکھا کہ تم خالد رضی اللہ عنہ بن ولید رضی اللہ عنہ کے صوبہ جات کی طرف جا کر وہاں سے قضاعہ کی طرف چلے جائو اور عمروبن بن العاصی کے شریک ہو کر ان لوگوں سے جنگ کرو جو قضاعہ میں سے مرتد ہو گئے ہیں‘ اس عرصہ میں سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بطاح یعنی بنو تمیم کے علاقہ سے فارغ ہو چکے تھے‘ وہ اپنی مہم کو پورے طور پر انجام دے کر واپس مدینہ منورہ میں تشریف لائے‘ یہاں دربار خلافت میں حاضر ہو کر ان کو مالک بن نویرہ کے معاملہ میں صفائی پیش کرنی پڑی‘ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اگرچہ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کے ساتھ سخت گیری اور تعزیر و سزا دہی کا برتائو ضروری سمجھتے تھے‘ مگر سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے ان کو معذور و بے گناہ پا کر قابل مواخذہ نہ سمجھا اور اپنی رضا مندی کا اظہار فرما کر ان کو سرخ روئی کے ساتھ مہاجرین و انصار کا ایک لشکر دے مسیلمہ کذاب کی طرف روانہ فرمایا۔