تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دار گرم ہوا تو مسیلمہ مجبوراً مسلح ہو کر گھوڑے پر سوار ہوا اور لوگوں کو لڑنے کے لیے آمادہ کرنے لگا‘ جب اس نے ہر طرف مسلمانوں کو چیرہ دست دیکھا تو گھوڑے سے اتر کر باغ کے باہر چپکے سے جانے لگا‘ اتفاقاً دروازہ باغ کے قریب وحشی (قاتل سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ ) کھڑا تھا‘ اس نے اپنا حربہ پھینک مارا جو مسیلمہ کی دوہری زرہ کو کاٹ کر اس کے پیٹ کے پار نکل گیا۔ بالآخر دشمنوں میں سے جس کو جس طرف راستہ ملا بھاگا اور تھوڑی دیر میں مسلمانوں کے سوا مرتدوں میں کوئی نظر نہ آتا تھا‘ اس لڑائی میں دشمنوں کے سترہ ہزار آدمی غازیان اسلام کے ہاتھ سے مقتول ہوئے‘ اور ایک ہزار سے کچھ زیادہ مسلمانوں کو درجہ شہادت حاصل ہوا‘ لیکن مسلمانوں میں زخمیوں کی تعداد بہت زیادہ تھی‘ شہید ہونے والوں میں حفاظ کلام اللہ بہت سے تھے‘ تین سو ساٹھ انصار اور تین سو ساٹھ تابعین اس لڑائی میں شہید ہوئے‘ لڑائی ختم ہونے کے بعد سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے مجاعہ بن مرارہ کو جو قید میں تھا اپنے ہمراہ لے کر لاشوں کا معائنہ کیا اور سرداران لشکر مسیلمہ اور خود مسیلمہ کی لاش کو مجاعہ نے شناخت کیا۔ بنو حنیفہ یعنی لشکر مسیلمہ کے بقیۃ السیف تو آوارہ و مفرور ہو چکے تھے‘ شہر اور قلعہ یمامہ میں عورتوں اور بچوں کے سوا کوئی مرد باقی نہ تھا‘ اور زخمیوں کی مرہم پٹی ضروری سمجھ کر سیدنا خالد رضی اللہ عنہ بن ولید نے اسی روز شہر یمامہ پر قبضہ کرنا ضروری نہ سمجھا‘ ان کا ارادہ تھا کہ کل صبح شہر پر قبضہ کرنے کے لیے بڑھیں گے۔ مجاعہ بن مرارہ نے اس موقعہ سے فائدہ اٹھانے میں کوتاہی نہ کی‘ اس نے خالد رضی اللہ عنہ بن ولید سے کہا کہ ہمارے جس قدر سردار معہ مسیلمہ مارے گئے ہیں آپ یہ نہ سمجھیں کہ آپ نے مہم کو پورا کر لیا ہے ابھی ان سے بہت زیادہ بہادر جنگ جو لوگ باقی ہیں اور وہ شہر کی مضبوط فصیلوں اور سامان رسد‘ نیز سامان حرب کی کافی فراہمی سے فائدہ اٹھا کر آپ کو ناک چنے چبوا دیں گے‘ مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ تھوڑی دیر کے لیے مجھے چھوڑ دیجئے تاکہ میں شہر میں جا کر ان سب لوگوں کو اس بات پر رضا مند کر لوں کہ وہ آپ کا مقابلہ نہ کریں اور شہر کو بہ رضا مندی صلح کے ساتھ آپ کے سپرد کر دوں‘ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے مجاعہ سے کہا میں تجھ کو قید سے رہا کئے دیتا ہوں تو جا کر اپنی قوم کو صلح پر آمادہ کر‘ لیکن ساتھ ہی یہ بھی بتائے دیتا ہوں کہ صرف میں ان کے نفوس کی بابت صلح کروں گا۔ مجاعہ لشکر اسلام سے روانہ ہو کر شہر میں گیا اور وہاں شہر کی عورتوں کو مسلح ہو کر فصیل شہر پر کھڑے ہونے کی ہدایت کر کے جو کچھ سمجھانا تھا سمجھا دیا اور واپس آ کر کہا کہ میری قوم محض اپنی جانوں کی بابت صلح کرنا نہیں چاہتی سیدنا خالد رضی اللہ عنہ بن ولید نے شہر کی طرف نظر ڈالی تو تمام فصیل تلواروں اور نیزوں سے چمک رہی تھی اور مسلح آدمیوں کی کثرت جو مجاعہ نے بیان کی تھی اس کی تصدیق ہو رہی تھی‘ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے زخمیوں کی کثرت اور مہم کے جلد ختم کرنے کے خیال سے صلح کو مناسب سمجھ کر اس بات پر رضامندی ظاہر کی کہ نصف مال و اسباب اور نصف مزروعہ باغات اور نصف قیدیوں کو بنو حنیفہ کے لیے چھوڑ دیں گے‘ مجاعہ پھر شہر میں گیا اور واپس آ کر کہا کہ وہ لوگ اس پر بھی رضا مند نہیں ہوتے‘ آپ ایک ربع مال و اسباب وغیرہ لے کر صلح کر لیں‘ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے