تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کمزور رائے کو بھی انہوں نے قابل قبول نہیں سمجھا اور فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ کی قسم اگر زکو ۃ کا ایک جانور یا ایک رسی بھی کوئی قبیلہ ادا نہ کرے گا تو میں اس سے ضرور قتال کروں گا۔۔۔‘‘ مرتدین کے وفود مدینہ منورہ میں آئے اور انہوں نے درخواست کی کہ نمازیں ہم پڑھتے ہیں‘ زکو ۃ ہم کو معاف کر دو‘ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے یہ صاف جواب سن کر وہ اپنے قبائل میں واپس گئے‘ یکایک تمام ملک میں سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے اس عزم راسخ کی خبر پھیل گئی اور مرتدین یا منکرین زکو ۃ مقابلہ اور معرکہ آرائی کے لیے تیار ہو گئے‘ صوبوں کے عاملوں نے اپنے اپنے صوبوں کے باغی ہو جانے اور زکو ۃ وصول نہ ہونے کی اطلاعیں بھیجیں‘ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے پوری مستعدی‘ کامل ہمت و استقلال کے ساتھ ایک بیدار مغز اور ملک دار شہنشاہ کی حیثیت سے عاملوں کے نام مناسب ہدایات اور سرداران قبائل کے نام خطوط روانہ کئے‘ جیش اسامہ رضی اللہ عنہ ادھر رومیوںسے برسرپیکار‘ ادھر مرتدین جو مدینہ کے نواح میں جمع ہو گئے تھے مدینہ پر حملہ کی دھمکی دے رہے تھے‘ دور دراز علاقوں کے مرتدین کے پاس پر شوکت و باسطوت تہدیدی خطوط سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ روانہ کر رہے تھے نواحی باغیوں کے حملوں کی مدافعت و مقابلہ کی تیاریوں سے بھی غافل نہ تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ کے موجودہ مسلمانوں کے قابل جنگ لوگوں کو مسجد نبوی رضی اللہ عنہ کے سامنے ہمہ وقت موجود و مستعد رہنے کا حکم دے رکھا تھا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ ‘ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ ‘ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ ‘ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ‘ کو مدینہ منورہ کے گرد گشت لگانے اور پہرہ دینے پر مامور کر دیا تھا کہ اگر مدینہ پر کوئی قبیلہ حملہ آور ہو تو فوراً اس کی اطلاع سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کو پہنچ سکے‘ مقام ابرق میں قبیلہ عبس اور مقام ذی القصہ میں قبیلہ ذبیان کا جمائو تھا‘ بنو اسد اور بنو کنانہ کے بھی کچھ لوگ اس میں شامل تھے‘ عبس اور ذبیان کو جب یہ معلوم ہوا کہ مدینہ منورہ میں بہت تھوڑے سے آدمی باقی ہیں اور زکو ۃ کے معاف کرنے سے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے صاف انکار کر دیا ہے تو انہوں نے متفق ہو کر مدینہ پر حملہ کر دیا‘ ان حملہ آوروں کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ ‘ و زبیر رضی اللہ عنہ و طلحہ رضی اللہ عنہ و ابن مسعود رضوان اللہ علیہم اجمعین نے مدینہ سے باہر ہی روکا اور مدینہ میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس خبر بھیجی‘ ادھر سے بلا توقف سیدنا ابوبکرصدیق روانہ ہوئے اور ذی خشب تک ان کو پسپا کر دیا اور وہ ہزیمت پا کر بھاگ نکلے‘ کچھ عرصہ بعد سیدنا صدیق اکبر گردوپیش موجود اور تیار مرتدین کی سرکوبی کے لیے پھر نکلے‘ آمنا سامنا پر دف اور قسم قسم کے باجے بجاتے اور ڈھول پیٹتے ہوئے آئے جس سے مسلمانوں کے اونٹ ایسے بد کے اور ڈر کے بھاگے کہ مدینہ ہی آ کر دم لیا‘ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں پھر سے منظم کیا اور دشمنوں پر حملہ آور ہوئے‘ مرتدین کو پانچ چھ گھنٹہ کی خوں ریز جنگ کے بعد شکست فاش حاصل ہوئی اور بہت سے مسلمانوں کے ہاتھوں سے مقتول ہوئے۔۔۔ سیدنا نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ اور ایک چھوٹی سی جماعت کے ہمراہ مال غنیمت تو سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے مدینہ میں بھیجا اور خود دشمنوں کے تعاقب میں روانہ ہو کر مقام ذی القصہ تک بڑھتے چلے گئے‘ ادھر دشمنوں نے پیچھے قبائل کے اندر موجود بہت سے مخلص مسلمانوں کو قتل کر دیا‘ جب سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے یہ