تاریخ اسلام جلد 1 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کرو جیسے نصاریٰ نے عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کو زیادہ بڑھا دیا‘ میں تو اللہ کے بندوں میں سے ایک ہوں‘ اس لیے مجھے عبداللہ و رسول کہا کرو۔۲؎ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم باہر تشریف لائے تو سب صحابہ رضی اللہ عنھم تعظیماً کھڑے ہو گئے‘ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جیسے عجمی آپس میں ایک دوسرے کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوتے ہیں اس طرح تم کو کھڑا نہ ہونا چاہیے۔ (شفا قاضی عیاض رضی اللہ عنہ ) آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے اصحاب رضی اللہ عنھم میں بالکل ملے جلے رہتے تھے اور مجلس میں جہاں جگہ مل جاتی تھی وہیں بیٹھ جاتے تھے‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نوکروں کے کام میں شریک ہو جاتے اور ان کو اپنے پاس بٹھا لیتے تھے‘ بارہا ایسا اتفاق ہوا کہ کوئی شخص یہودی کا مقروض ہوا اور یہودی نے تنگ طلبی کی‘ وہ شخص آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی پاس آیا‘ اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس کچھ ہوا تو خود اس کا قرض دے دیا‘ ورنہ اس یہودی کے پاس خود تشریف لے گئے اور اس سے کچھ اور مہلت دینے کے لیے کہا۔مگر یہودی لوگ اس کا بھی کچھ خیال نہیں کرتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم ادھر ادھر کوشش کر کے جس طرح ممکن ہوتا تھا ادائے قرض کا بندوبست کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ بھوکوں اور مسکینوں کے لیے کوشش کرنے والا مجاہد فی سبیل اللہ‘ قائم اللیل اور صائم النہار کے برابر درجہ رکھتا ہے۔ ایک شخص نے حاضر خدمت ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جنت پانے کا عمل کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا صدق‘ کیونکہ جب آدمی سچا ہوتا ہے تو نیکی کرتا ہے اور جب نیکی کرتا ہے تو نور ۱؎ صحیحبخاریکتابالحدودحدیث۶۷۸۸۔ ۲؎ صحیحبخاریکتاباحادیثالانبیاءحدیث۳۴۴۵۔ ایمان پیدا ہوتا ہے‘ اور جب ایماندار ہوتا ہے تو جنت میں داخل ہوتا ہے‘ ایک اور موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ خبردار! سچے رہو خواہ تم کو سچائی میں ہلاکت ہی کیوں نہ نظر آئے‘ کیونکہ بلاشبہ نجات اسی میں ہے‘ مکہ سے بدر کی طرف آتے ہوئے راستے میں اخنس بن شریف نے ابوجہل سے سے کہا کہ اے ابوالحکم میں تجھ سے ایک بات پوچھتا ہوں‘ اس جگہ ہم دونوں کے سوا کوئی تیسرا شخص ہماری بات سننے والا نہیں ہے‘ تو مجھے سچ سچ بتا دے کہ آیا محمد صلی اللہ علیہ و سلم سچا ہے یا جھوٹا‘ ابوجہل نے جواب دیا کہ واللہ! بے شک محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہمیشہ سچ بولتا ہے اور اس نے کبھی غلط بیانی نہیں کی۔ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم شریف پردہ نشیں کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیادار تھے اور جب کوئی بات آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ناپسند ہوتی تھی تو ہم لوگ فوراً آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے چہرے سے سمجھ جاتے تھے۔۱؎ اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو کسی کی بات اچھی معلوم نہ ہوتی تو اسے اشارے کنارے سے آگاہ فرما دیتے تھے تاکہ وہ خفیف نہ ہو لیکن کلام الٰہی اور اعلاء کلمۃ الحق میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کسی کی رعایت نہیں کرتے تھے۔۲؎ میانہ روی